پاکستان میں صدارتی نظام حکومت کے حوالے سے بحث چل رہی ہے۔ ملک کے لئے کون سا نظام بہتر ہے یہ سوال کبھی مقابلے کے امتحان میں پوچھا جاتاہے تو کبھی پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں ہر تھوڑے عرصے بعد زیرِ بحث آ جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پربھی صارفین ایک طبقہ پاکستان میں صدارتی نظام حکومت رائج کرنے کے حق میں دلائل دے رہا ہے۔بعض ذرائع ابلاغ پر بذریعہ ٹی وی اشتہارات مہم چلائی جا رہی ہے۔ماضی میں جب بھی ملک میں سیاسی حکومت کسی بحران کی زد میں آتی رہی تو ایک خاص طبقہ اس کا قصوروار پارلیمانی نظام حکومت کو قرار دیتا رہا اور نئے نظام کا تجربہ کرنے کی تجویز پیش کرتا رہا۔ سابق اور موجودہ منتخب نمائندے پارلیمانی نظام کی حمایت میں سامنے آ جاتے ہیں اور پھر یہ بحث خود بخود کچھ عرصے بعد دم توڑ جاتی ہے۔صدارتی نظام کے حامیوں کا خیال ہے کہ صدارتی نظام پاکستان میں حقیقی قیادت پیدا کر سکتا ہے صدر کو 51 فیصد ووٹ لینا ہوتے ہیں صدر مملکت کے ساتھ ایوان بالا کے انتخابات بھی براہ راست ہونے سے ملک میں حقیقی نمائندہ پارلیمنٹ وجود میں آئے گی پارلیمان میں مخصوص 20 فیصد سیٹیں ختم ہو جائیں گی۔ صدارتی نظام کے حامیوں کا موقف ہے کہ پارلیمانی نظام سے ہارس ٹریڈنگ اور ووٹوں کی خرید و فروخت کا دھندہ پروان چڑھتا ہے واضح اکثریت حاصل نہ ہونے پر سیاسی جماعتیں وزارتوں کا لالچ دے کرچھوٹی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملاتی ہیں اور حکمران جماعت ہر وقت چھوٹی پارٹیوں سے بلیک میل ہوتی رہتی ہے۔ اتحادیوں کو خوش کرنے کے لئے انہیں وفاقی وزیر، وزیرمملکت، مشیر اور معاون خصوصی کے عہدے دینے پڑتے ہیں وفاقی کابینہ کے ارکان کی تعداد 80سے تجاوز کرجاتی ہے۔ ان کی تنخواہیں، مراعات، سہولیات،صوابدیدی اور ترقیاتی فنڈزپر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور یہ قرض دار ملک اس قسم کی عیاشی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔صدارتی نظام میں وفاقی کابینہ مختصر ہوتی ہے صدر اپنی مرضی سے مختلف شعبوں کے ماہر سات آٹھ افراد پر مشتمل کابینہ تشکیل دیتا ہے۔امریکہ سمیت دنیا کے بہت سے جمہوری ملکوں میں صدارتی نظام کامیابی سے چل رہا ہے۔ 1973کے آئین کے مطابق ملک میں پارلیمانی نظام نافذ ہے اور قانونی ماہرین سمجھتے ہیں کہ صدارتی نظام کے نفاذ کے لیے آئین میں ترامیم درکار ہوں گی جس کیلئے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دو تہائی اکثریت چاہئے ہو گی۔دوسری طرف آئینی ماہرین نے صدارتی نظام کے نفاذ کو خارج ازامکان قرار دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی نظام بذات خود اچھا یا برا نہیں ہوتا۔اسے اپنانے والے اپنے طرزعمل سے اسے اچھا یا برا بناتے ہیں۔ امریکہ میں صدارتی نظام اگر کامیاب ہے تو اس کے پیچھے سوا دو سوسال کا تجربہ کارفرما ہے برطانیہ میں پارلیمانی نظام گذشتہ ڈھائی سو سالوں سے چل رہا ہے وقت گذرنے کے ساتھ انہوں نے نظام میں پیدا ہونے والی خامیوں کو دور کیا۔پاکستان سمیت تمام ترقی پذیر ملکوں میں سیاسی نظام کرپشن کی زد میں ہونے کی وجہ سے ناکامی سے کے خطرے سے دوچار رہتا ہے۔ جب تک کرپشن کا مکمل خاتمہ نہیں کیاجاتا اور قومی وسائل کے ضیاع اور امانت میں خیانت کرنے والوں کیلئے کڑی سزائیں مقرر نہیں کی جاتیں۔صدارتی یا پارلیمانی کسی بھی نظام سے ملک میں تبدیلی آنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔