پشاور میں کورونا وبا سے متاثرین کی شرح 16فیصد تک جا پہنچی ہے جبکہ کورونا مریضوں کے تناسب سے دوسرے اُور تیسرے نمبر بالترتیب نوشہرہ اُور کوہاٹ کے اضلاع ہیں جہاں ہر 100 میں سے 5 افراد کورونا سے متاثر پائے گئے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ ’نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر‘ کی جانب سے کسی ضلع میں کورونا وبا سے متاثرین کی شرح اگر دس فیصد سے تجاوز کر جائے تو وہاں مختصر اُور طویل دورانیئے کے لئے سماجی سرگرمیاں بشمول تعلیمی اداروں کو بند کر دیا جاتا ہے۔پشاور میں کورونا وبا پھیلنے کی غیرمعمولی شرح اُور دس فیصد کی مقررہ شرح (نفسیاتی حد) عبور کرنے سے متعلق اعدادوشمار کو غیرحتمی قرار دیتے ہوئے محکمہئ صحت کے حکام اِس امکان کو تسلیم کرتے ہیں کہ اگر کورونا تجزئیات (ٹیسٹنگ) میں اضافہ کیا جائے تو کورونا کیسیز کی شرح بھی بتدریج بڑھتی چلی جائے گی۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کسی بھی طرح پاکستان کے دیگر صوبوں سے مختلف نہیں۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ملک کی 60 فیصد سے زائد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے لیکن حکومت کی جانب سے علاج معالجے کی فراہم کردہ 60فیصد سہولیات دیہی علاقوں میں نہیں بلکہ مرکزی شہروں میں فراہم کی جا رہی ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اضلاع کی سطح پر قائم علاج گاہوں (ڈی ایچ کیو ہسپتالوں) میں فراہم کردہ سہولیات کو معیاری بنانے کی بھی ضرورت ہے اُور تیسری ضرورت تربیت یافتہ افرادی قوت کی کمی سے متعلق ہے جبکہ آبادی کے تناسب سے ہر سال ڈاکٹروں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ اگر حکومت سرکاری میڈیکل اینڈ کالجز میں سیکنڈ شفٹ کا آغاز کرے تو اِس سے نہ صرف اہل طلبہ کو ایک بڑی تعداد کو میڈیکل و ڈینٹل داخلہ ملے گا جو ہزاروں کی تعداد میں صرف اِس وجہ سے ہر سال داخلے سے محروم رہ جاتے ہیں کیونکہ میڈیکل و ڈینٹل کالجوں میں خاطرخواہ نشستیں دستیاب نہیں ہوتیں۔ذہن نشین رہے کہ چار جنوری دوہزاربائیس کے روز خیبرپختونخوا کے ایڈوکیٹ جنرل شمائل بٹ نے عدالت عظمیٰ (سپرئم کورٹ آف پاکستان) کو بتایا تھا کہ خیبرپختونخوا حکومت نے علاج معالجے کے شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے 3 ارب روپے جیسی خطیر رقم مختص کی ہے اُور اِس رقم سے سرکاری ہسپتالوں میں آلات (مشینری) کی فراہمی یا اُسے جدید بنایا جائیگا۔کورونا وبا کی پانچویں لہر جاری ہے جس کے لئے خیبرپختونخوا میں ’ہیلتھ ایمرجنسی‘ کا نفاذ کیا گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے کسی بھی شعبے میں ہنگامی حالات کے نفاذ کا اعلان کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تمام تر وسائل اُور توجہ اُس ایک مسئلے کی جانب مبذول کر دی جاتی ہے لیکن کورونا وبا سے نمٹنے کی حکمت ِعملی میں ایسی کوئی بھی عجلت دیکھنے میں نہیں آ رہی۔ صوبائی سطح پر ہر دن زیادہ سے زیادہ 15 ہزار کورونا ٹیسٹ کئے جا رہے ہیں جبکہ ضرورت اِس سے کئی گنا زیادہ سہولیات کی ہے۔ کورونا کی نئی قسم سے متاثرین ظاہر ہونے کے بعد سے کورونا ٹیسٹنگ کو بڑھا کر یومیہ 2400 کر دیا گیا ہے لیکن کئی ایسے اضلاع کہ جہاں کورونا وبا زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے‘ وہاں یومیہ ٹیسٹنگ کا یہ ہدف حاصل نہیں کیا جا رہا جیسا کہ مردان میں اوسطاً یومیہ 1200‘ صوابی 1000‘ کوہاٹ 850‘ نوشہرہ 1000‘ ڈیرہ اسماعیل خان 1060‘ ہری پور 850‘ بنوں 450‘ چارسدہ 990 اُور ایبٹ آباد کے لئے یومیہ ہدف 420 تجزئیات رکھے گئے ہیں۔ عالمی ادارہئ صحت (WHO) کی ویب سائٹ (covid19.who.int) پر دیئے گئے تازہ بہ تازہ (انٹرایکٹو) اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ہر چوبیس گھنٹوں میں ساڑھے چھ ہزار سے زائد کورونا مریضوں کا اضافہ ہو رہا ہے جبکہ ملک میں کورونا مریضوں کی کل تعداد 13 لاکھ 45 ہزار سے زیادہ ہے اُور کورونا کے سبب اُنتیس ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔ یہ صورتحال کسی بھی طرح معمولی نہیں بالخصوص ایک ایسی صورتحال میں جبکہ کوورنا وبا سے بچنے کے لئے وضع کردہ احتیاطی تدابیر (ایس اُو پیز) پر خاطرخواہ سنجیدگی اُور وسیع پیمانے پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔