مکروہ بھارتی چہرہ پھر بے نقاب

موقر بین الاقوامی جریدے کی تازہ ترین جائزہ رپورٹ میں نریندر مودی کی قیادت میں بھارت کو ایک فسطائی ریاست اور مسلمانوں سمیت دیگرمذہبی اقلیتوں کے لیے انتہائی خطرناک ملک قرار دیاگیا ہے جریدے کی رپورٹ کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ملک کو مکمل طور پر ایک ہندوتوا ریاست بنانا چاہتی ہے۔بھارتی حکومت راشٹریہ سیوک سنگ کی پالیسی کے تحت اقلیتوں سے ملک کو صاف کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں،سکھوں اور عیسائیوں کے خلاف حملے معمول بن چکے ہیں اورنچلی ذات کے ہندو بھی برہمن حکمرانوں کے دست برد سے محفوظ نہیں ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ حکومت میں ہندو انتہا پسندگروپوں کو اس قدر شہ ملی ہے کہ وہ کھلے عام اقلیتوں کے خلاف تشدد پر اتر آئے ہیں۔مسلمانوں اور سکھوں کے گھروں، دکانوں اور کاروباری مراکز پر حملے کئے جارہے ہیں۔گزشتہ ماہ کرسمس کی خوشیاں منانے والے عیسائیوں کی تقریبات پر حملے ہوئے۔ مذہبی عدم رواداری روزبروز بڑھتی جا رہی ہے معاشرے کے تمام طبقوں پربرہمن ثقافت کو مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔رپورٹ کے مطابق مودی کا فسطائی نظریہ جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کیلئے ایک سنگین خطرہ بن چکا ہے۔عالمی برادری کو اس خطرناک ذہنیت سے نمٹنے اور بھارت میں اقلیتوں کو بچانے کے لیے فوری طور پر کردار ادا کرنا چاہئے۔بھارت اپنے آقا امریکہ اور یورپ کی شہ پر خود کو جنوبی ایشیاء کے پولیس مین کے طورپر پیش کررہا ہے۔ خطے کے سات ممالک نے باہمی تعاون کے ذریعے ترقی کی راہیں تلاش کرنے کیلئے ساوتھ ایشیئن ایسوسی ایشن فار ریجنل کارپوریشن (سارک) کے نام سے تنظیم قائم کی تھی۔ بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث سارک سربراہ اجلاس التواء کا شکار ہے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بھارت کے اپنے تمام پڑوسیوں پاکستان، سری لنکا، بنگلہ دیش، نیپال اور بھوٹان کے ساتھ سرحدی تنازعات ہیں ان تنازعات کو سارک کی سطح پر اٹھائے جانے کے خدشے سے وہ تنظیم کا اجلاس ہونے نہیں دے رہا۔ انسانی حقوق کی غیر جانبدار بین الاقوامی تنظیموں نے بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں ریاستی دہشت گردی اور حق خود ارادیت کیلئے جدوجہد کرنے والے کشمیریوں پر مظالم کی رپورٹ حال ہی میں شائع کی ہے۔ جس میں کہاگیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں نو لاکھ سے زائد بھارتی فوج نے عملی طور پر ریاست کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کردیا ہے۔ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری ہیں۔بچوں اور خواتین کو بھی ظلم و بربریت کا نشانہ بنایاجارہا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر تعینات اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین نے بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کو بے نقاب کردیا ہے۔دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ کہلانے والے اس ملک میں جمہوری اقدار کو جس طرح پامال کیاجارہا ہے اس پر جمہوریت کے علمبردار مصلحت کے تحت خاموش ہیں وہ جمہوریت اور انسانی حقوق پر اپنے تجارتی اور معاشی مفادات کو فوقیت دے رہے ہیں۔امریکہ میں بھی غیر جانبدار حلقوں نے نشاندہی کی ہے کہ بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث جنوبی ایشیاء جوہری فلیش پوائنٹ بنتا جارہا ہے اگر اس خطے میں دھکنے والی چنگاری آگ بن کر بھڑک اٹھی تو نہ صرف ایشیاء کا پورا خطہ بلکہ عالمی امن بھی خطرے میں پڑسکتا ہے۔ اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں کو اس چنگاری کو بھڑکنے سے پہلے ٹھنڈی راکھ میں دبانے کیلئے فوری اور عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ انسانی حقوق کی پامالی کسی ریاست کا داخلی معاملہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔  اقوام متحدہ کے چارٹر میں بھی اس کی وضاحت کی گئی ہے۔ مودی سرکار کو یہ غلط فہمی ہے کہ وہ ریاستی جبر سے آزادی اور حق خود ارادیت کی تحریکوں کو دبانے میں کامیاب ہوگی۔ بھارت اب ایک لبرل اور سیکولر ریاست نہیں رہی۔ مسلسل استحصال اور جبرواستبداد سے تنگ آکر کشمیری مسلمان، سکھ، تامل، گورکھے اور بنگالی آزادی چاہتے ہیں اور دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جب کسی قوم میں آزادی حاصل کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اس جذبے کو لاٹھی اور گولی کے زور سے زیادہ عرصہ دبائے رکھنا ممکن نہیں ہوتا اور حالات نے ثابت کر دیا ہے کہ کشمیر میں تحریک آزادی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تیز ہوتی گئی ہے اور اب وہ مرحلہ آگیا ہے کہ بھارت کو کشمیریوں کی مرضی کے آگے جھکنا ہوگا۔