بول چال میں احتیاط

مشاہدہ ہے کہ اکثر لوگ ہنسی مذاق یا بے توجہی (لاعلمی) کے باعث ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو بسا اُوقات  انتہا کی حد تک جا پہنچتی ہیں اور یقینا عمومی معاشرت سے متعلق یہ صرف اہم نہیں بلکہ سنگین مسئلہ بھی ہے‘ جس پر خاطرخواہ گہرائی سے غور و فکر اور اِن  غیر محتاط کلمات کی ادائیگی سے محفوظ رہتے ہوئے دوسروں کو بھی اِس سے کنارہ کشی کی تلقین عام ہونی چاہئے۔ سوشل میڈیا (انٹرنیٹ) کے زمانے میں جب شہروں اور دیہات میں رہنے والوں کے درمیان صرف مواصلاتی رابطے ہی پہلے سے زیادہ فعال اور کم قیمت نہیں ہوئے بلکہ اِس کے ساتھ ہر قسم کی تصدیق شدہ (درست) اور غیرتصدیق شدہ (اغلاط کا مجموعہ) معلومات کی گردش بھی باآسانی ہو رہی ہے تو ضرورت اِس اَمر ہے کہ نیت کرتے ہوئے اِسی ’سوشل میڈیا‘ جیسے ”خیر ِمحض“ وسیلے‘ ذریعے اور طریقے کا استعمال کرتے ہوئے اپنی اور دوسروں کی عمومی و خصوصی غلطیوں کی اصلاح کرنے کی کوشش کی جائے۔’دعوت اِسلامی‘ نامی غیرسیاسی مذہبی تحریک کے بانی اور سربراہ مولانا الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ نے ”کفریہ کلمات“ سے متعلق تین کتابیں لکھی ہیں۔ اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو دعوت اسلامی کے عمومی اشاعتی سلسلے اور بالخصوص کفریہ کلمات کے حوالے سے اِس پوری کاوش (کار ِخیر) کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ سوچ سمجھ کر بولنے کی تعلیم دی جائے اور کردار کے ساتھ گفتار میں بھی حد درجہ احتیاط اختیار کرنے کی جانب توجہ دلائی جائے کیونکہ اپنی اور دوسروں کی بول چال کی اصلاح بھی نیکی کی ترغیب (دعوت) دینے ہی کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔ مذکورہ تینوں کتابیں  اُردو کے علاؤہ اَنگریزی‘ بنگلہ‘ گجراتی‘ کناڈا‘ رومن اردو‘ ہندی اور ڈینش زبانوں میں آن لائن دستیاب ہیں اور دعوت اسلامی کی ویب سائٹ (DawatIslami.net) سے کسی بھی وقت بلاقیمت (مفت) حاصل کی جا سکتی ہیں۔ دعوت ِاسلامی کی جانب سے کفریہ کلمات کی جانب توجہ اگرچہ شروع دن سے  رہی ہے  لیکن اِس اصلاح احوال کے سلسلے میں باقاعدہ مہم کی صورت کوشش کا آغاز جولائی 2008ء میں شائع ہونے والی کتاب سے سامنے آئی۔ مذکورہ تینوں کتابیں ’اصلاح معاشرے‘ کے حوالے سے ایک اہم ضرورت پوری کر رہی ہیں تاہم وقت کے ساتھ اِن کتابوں میں اضافے کی بھی ضرورت ہے چونکہ مہنگائی کے زمانے کتابوں کی اشاعت اور اِنہیں خریدنے کی سکت کم ہو رہی ہے اِس لئے اگر ’اِی بک (e-book)‘ کی صورت اگر اشاعتوں کا الگ سے سلسلہ شروع کیا جائے اور دعوت اسلامی کے واٹس ایپ گروپوں کی مناسب تشہیر کی جائے تو چراغ سے چراغ جلتا چلا جائے گا اور آن لائن قارئین کی بڑی تعداد مستفید ہو سکے گی۔ توجہ طلب ہے کہ صرف عمومی بول چال اور فلمی شاعری ہی نہیں بلکہ دیگر شاعرانہ اور نثری مضامین میں بھی اکثر ایسے الفاظ‘ جملے‘ اشارے یا استعارے استعمال کئے جاتے ہیں یا ہو جاتے ہیں‘ جو بطور مسلمان اور ادب و احترام کی تلقین پر مبنی اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ بول چال میں جس درجہ احتیاط کا مظاہرہ ہونا چاہئے وہ دیکھنے میں نہیں آ رہا اور یہی مرحلہئ فکر اُن طبقات کیلئے پریشانی و تشویش کا باعث ہے جو اِس بڑھتے ہوئے سماجی مرض سے خود بھی محفوظ رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسروں کی شفایابی کے بھی متمنی (خیرخواہ) ہیں۔فتاویٰ شامی کے مطابق ”حرام الفاظ اور کفریہ کلمات کے متعلق علم سیکھنا فرض ہے۔‘ تو جہاں علم سیکھنا بھی فرض شمار ہو وہاں فرض عبادات کے بعد سب سے اچھا عمل یہ ہے کہ اپنے آپ کو خدا کے ذکر میں زیادہ سے زیادہ مشغول رکھا جائے مختلف لوگوں اور ان کی مصروفیات اور مشاغل الگ الگ ہوتے ہیں لیکن ”اللہ کا ذکر“ ہر حال میں‘ دل ہی دل یا زبان سے کرتے رہنے سے متعلق اتفاق رائے پائی جاتی ہے کہ عمل یعنی اللہ تعالیٰ کے ذکر کا التزام ہی درحقیقت بہترین مشغلہ ہے جس میں مصروف رہنے کا اجروثواب بھی ہے اور آخرت میں انعام و اکرام بھی ملے گا۔