صبر کا میٹھا پھل ہاتھ میں ہے۔ طویل انتظار کے بعد صرف اچھی نہیں بلکہ بہت ہی اچھی خبر سننے کو ملی ہے گویا دعائیں قبول ہوئی ہیں‘ جس پر ’پشاور سے غیرمشروط محبت رکھنے والے اور اِس شہر کے بے لوث پرستار‘ جشن منا رہے ہیں۔ مبارکبادوں کے تبادلوں کا سلسلہ چوبیس جنوری کی شام سے جاری ہے جو صرف ’قومی جیت‘ جیسا محدود حاصل نہیں بلکہ یہ ’پشاور کی جیت‘ ہے اور پشاور کو بھی مبارک دی جانی چاہئے۔ خبر یہ ہے کہ تاریخ پشاور کا ایک باب جو یہاں ’پری چہرہ کے مزار اور اِس سے ملحقہ قبرستان‘ کی اراضی ہتھیانے سے متعلق تھا عرصہ ستائیس سال مختلف عدالتوں بشمول سیشنز جج کی عدالت میں زیرسماعت رہا اور اِس مقدمے میں مخالف فریق کو سال 1995ء میں ڈگری جاری کی گئی تھی‘ جس کے بعد ’چوبیس جنوری دوہزار بائیس‘ کے روز اِس مقدمے کا فیصلہ ’پشاور کے حق‘ میں آیا‘ شاید ہی پشاور کی تاریخ میں ایسا کوئی ایک بھی اجتماعی و عوامی مفاد کا مقدمہ یوں فیصلہ ہوا۔ قابل ذکر ہے کہ مذکورہ مقدمہ بظاہر 24 مرحلے اراضی کا ہے‘ جس میں ایک فریق کا دعویٰ ہے اور جسے عدالت نے قانونی آئینی اور تاریخی طور پر درست بھی قرار دے دیا ہے کہ ”اندرون کوہاٹی مذکورہ قطعہ ”قبرستان کی اراضی“ ہے جو فارس (موجودہ افغانستان) کے بادشاہ نادر شاہ افشار نے وقف کی تھی اور یہاں اپنی محبوب و مکرم اہلیہ (ملکہئ وقت) پری چہرہ کا مزار بنایا۔ 1739ء میں جب بادشاہ نادر شاہ پشاور سے اپنے لشکر کے ہمراہ گزر رہا تھا تو اُن کی محبوب بیوی پری چہرہ بیمار پڑ گئیں اور یہیں مختصر قیام کے دوران اُن کا انتقال بھی ہوا جس کے بعد اُنہیں شاہی باغ کے حصے میں (ملکہ کے شایان شان جگہ) پر سپرد خاک کیا گیا۔ آج پری چہرہ کے مزار پر پلاسٹک کے شاپنگ بیگ اور گندگی کے ڈھیر لگے نظر آتے ہیں جو کوچی بازار سے شروع ہونے والے تجارتی مرکز کی پٹی ہے اور کوہاٹی گیٹ یعنی پری چہرہ کے مزار پر آ کر ختم ہوتی ہے۔ ایک عرصے سے دبی آواز میں دوست احباب نجی محافل میں یہ مطالبہ بصورت تذکرہ کرتے تھے کہ اِس قطعہئ اراضی کی اصل حالت و حیثیت میں حفاظت اور بحالی ہونی چاہئے لیکن کسی میں ہمت یا کسی کو فرصت نہیں تھی کہ قانونی و تاریخی جنگ کے لئے خود کو پیش کرتا۔ یہی وجہ تھی کہ وقت کے ساتھ تاریخ پشاور کے اِس اثاثے پر گمنامی کی گرد پڑتی رہی۔ ایک ایسے شہر میں جہاں قبرستانوں کی سینکڑوں کنال اراضی ہڑپ کر لی گئی ہو وہاں چند مرلے رقبے کی وقعت یا اِس کی اہمیت بارے توجہ دلانے کی اہمیت ہونے کے باوجود بھی یہ بظاہر غیراہم دکھائی دینے لگتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ قیام پاکستان سے قبل پشاور صرف فصیل شہر کے اندرونی آباد علاقوں پر مشتمل ہوتا تھا جنہیں مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا اور اراضی کے اِس قدیمی بندوبست میں فصیل شہر کے اندر اور باہر کے علاقے جو کہ الگ الگ ٹکڑوں میں تقسیم تھے اِن میں شامل ”ٹکڑا نمبر 3“ اندرون کوہاٹی گیٹ سے سرکی تک اور اندرون کوہاٹی و بیرون کوہاٹی (سٹی سرکلر روڈ) کے علاقے شامل تھے جو وسیع عریض رقبے پر پھیلا (تاحد ِنظر) قبرستان ہوا کرتا تھا۔ یہ نکتہ بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ اہل پشاور نے نئی نسل کو تاریخ ِپشاور بطور ورثہ اور اثاثہ منتقل نہیں کی۔ نصاب ِتعلیم میں کوئی ایک بھی سبق ایسا نہیں ملتا جو پشاور کی تاریخ سے متعلق ہو تو پھر کس طرح توقع کی جا سکتی ہے کہ پشاور کی محبت کے چراغ دلوں میں روشن رہیں گے اور پشاور کی تاریخ سینہ بہ سینہ‘ نسل در نسل ازخود منتقل ہوتی رہے گی‘ یہ کوئی خواب نہیں حقیقت ہے۔ محبت و تعلق دلی ہوتا ہے مشروط نہیں۔ اِسی محبت کے اظہار کے لئے شعوری کوشش اور مزید محنت کی ضرورت ہے۔”عکس کا ہونا ہے مشروط ترے ہونے سے …… خود کو پہچان مگر عکس کو حیرت نہ بنا (یونس تحسین)۔“……