ایران کے شمال مشرقی صوبے خراسان سے تعلق رکھنے والے ’ترکمن قبیلہ‘ نے 1736ء میں نادر شاہ نامی سپہ سالار کی قیادت میں بادشاہت (dynasty) قائم کی۔ تاریخ میں ’نادر شاہ افشار‘ نامی اِس جنگجو سردار کا ذکر ’نادر قلی بیگ‘ اور ’تہماسب قلی خان‘ کے ناموں سے بھی محفوظ ہے جس کی فتوحات کا سلسلہ 1736ء سے 1747 تک جاری رہا اور اِس دوران مشرق وسطی‘ وسط ایشیائی ریاستیں‘ ہرات اور درہ خیبر کے راستے پشاور سے ہوتے ہوئے وہ برصغیر تک جا پہنچا۔ نادر شاہ افشار (پیدائش 1688ء۔ وفات: 1747ء) نے 1738ء میں قندھار (افغانستان) فتح کرنے کے بعد مغل بادشاہت (برصغیر) کا رخ کیا اور غزنی‘ کابل‘ پشاور‘ سندھ اور لاہور فتح کرتے ہوئے دریائے سندھ کے کنارے فتوحات کرتا چلا گیا البتہ فتوحات کے اِس سفر میں نادر شاہ فشار کو ایک صدمہ اپنی محبوب اہلیہ‘ ملکہ پری چہرہ کی رحلت کی صورت برداشت کرنا پڑا۔ یہ سانحہ اُس وقت پیش آیا جب نادر شاہ فشار کا پڑاؤ پشاور میں تھا اور یہیں ملکہ پری چہرہ کی علالت نے طول پکڑا اور وہ خالق حقیقی سے جا ملیں۔ اپنی محبوب اہلیہ کے شایان شان اُنہیں اُس وقت کے شاہی باغ (موجودہ کوہاٹی گیٹ) کے ایک حصے میں پورے شاہی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا اور ملکہ پری چہرہ کے ساتھ اُن کے کئی خدمت گزار بھی پشاور میں آباد ہو گئے۔ یہی پشاور کا حسن رہا ہے کہ یہاں سے گزرنے یا مختلف اوقات میں یہاں کسی غرض سے آنے والی مختلف اقوام کے لوگ آباد ہوتے رہے جس کی وجہ سے پشاور صرف پاکستان یا برصغیر ہی کا نہیں بلکہ جنوب مشرق ایشیا کا قدیم ترین اور زندہ تاریخی شہر ہونے کا اعزاز رکھتا ہے۔ ملکہ پری چہرہ کا مزار جس شاہی باغ کے حصے میں قائم کیا گیا وقت گزرنے کے ساتھ اُس کی اراضی قبضہ ہوتی رہی۔ فصیل شہر بنائی گئی تو مذکورہ شاہی باغ کا کچھ حصہ جس میں مزار بھی شامل تھا آباد علاقوں کے شمار میں لایا گیا اور اِسے کوہاٹی گیٹ کے اندر رکھا گیا جبکہ باغ کا بیشتر حصہ کوہاٹی گیٹ کے بیرونی غیرآباد علاقوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ پری چہرہ کا مزار اور اِس سے ملحقہ قبرستان ایک عرصے تک محفوظ رہے لیکن قیام پاکستان کے بعد آنے والی سیاسی و سماجی تبدیلیوں کے باعث باغ کی یہ اراضی وقتاً فوقتاً قبضہ ہوتی رہی‘ جس کی بنیادی وجہ محکمہئ مال (پٹوار خانے) کا وہ نظام (اراضی کا بندوبست) ہے‘ جسے اگرچہ کمپیوٹرائزڈ کر دیا گیا ہے لیکن اِس کمپیوٹرائزیشن کے ساتھ قبضہ کی گئی اراضی کی حیثیت بھی قانونی شکل اختیار کر گئی ہے۔ پری چہرہ مزار اور اِس سے ملحقہ قبرستان کی باقی ماندہ چوبیس مرلہ اراضی قبضہ کرنے کی کوشش ہوئی تو آثار قدیمہ اور وقف املاک کے علاوہ متعلقہ پولیس تھانہ بھی حرکت میں نہیں آیا۔ وہ حکومتی ادارے جن کے ملازمین کو تنخواہیں اور مراعات ہی ”پشاور کی تاریخی آثار‘ تعمیرات اور جملہ نشانیوں کے تحفظ“ کے لئے دی جاتی ہے اُنہوں نے تجاہل عارفانہ اختیار کئے رکھا لیکن ایک زندہ دل پشاور کے سپوت سے برداشت نہ ہوا تو عدالت سے رجوع کیا اور 27 سالہ طویل (صبرآزما‘ مشقت طلب) عدالتی کاروائی کے بعد ایک ایسا مقدمہ جیت لیا‘ جو درحقیقت اُس کا ذاتی جھگڑا نہیں بلکہ پشاور کا مقدمہ تھا اور اِس کے ذریعے صرف اُس کی شخصی (ذاتی) نہیں بلکہ پشاور فتح یاب ہوا ہے۔ اندرون کوہاٹی محلہ نوبجوڑی کے رہائشی اخونزادہ مظفر علی کا نام پشاور کی تاریخ میں ہمیشہ محفوظ رہے گا جنہوں نے ستائیس دن‘ ستائیس ہفتے‘ ستائیس مہینے نہیں بلکہ ستائیس برس‘ تن تنہا ’پری چہرہ مزار‘ سے متعلق ایک ایسے مقدمے کی پیروی کی جس کے تاریخ شواہد (گواہ) خاموش دستاویزات تھیں۔ اُنہوں نے قیام پاکستان سے قبل کی دستاویزات اور نقشہ جات کھوج نکالے جو ’ہمت ِمرداں مدد ِخدا‘ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پری چہرہ مزار اور اِس سے ملحقہ قبرستان جو کبھی ’شاہی باغ‘ کا حصہ ہوا کرتا تھا‘ اراضی کے بندوبست میں ’ٹکڑا نمبر 3‘ کہلاتا ہے۔ پشاور کے آباد و غیرآباد علاقوں پر مبنی اِس ٹکڑے کا بیشتر حصہ قبضہ ہو چکا ہے اور اگر ’پری چہرہ مزار‘ کی جگہ کثیرالمنزلہ عمارت کھڑی ہو جاتی تو یہ بات پھر کبھی بھی ثابت نہ کی جا سکتی کہ یہاں کبھی قبرستان ہوا کرتا تھا۔ اہل پشاور کی اکثریت اپنے شہر کی تاریخ سے منہ موڑ چکی ہے۔ یہاں کی زبان و ثقافت کے چیدہ چیدہ نقوش اور نشانیاں بھی چند دن کی مہمان ہیں تو اغیار سے کس طرح توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ پشاور کے ماضی کو خاطرخواہ اہمیت دیں گے۔پری چہرہ مزار اُور اِس سے ملحقہ قبرستان کا مقدمہ درحقیقت پشاور کے اُس دیرینہ مؤقف کی کامیابی ہے‘ جو اِس سے قبل عدالت میں کبھی بھی اِس طرح طویل جدوجہد کے بعد ثابت نہیں ہوئی۔ اِس کامیابی سے اخونزادہ مظفر نے صرف آئینی اور قانونی طور پر ہی نہیں بلکہ پشاور کی تاریخ کو بھی مکمل کیا گیا ہے جو پری چہرہ مزار کے بغیر نامکمل اور گمشدہ رہتی۔ اخونزادہ مظفر کی کوششوں سے کوہاٹی گیٹ سے ملحقہ فصیل شہر کے کئی حصے ختم ہونے سے بچا لئے گئے اور اِس سلسلے میں بھی وہ عدالت سے رجوع کئے ہوئے ہیں۔