خبر یہ ہے کہ پشاور شہر کی حدود میں تجاوزات کے خلاف (ایک اور) ”بڑی کاروائی (گرینڈ آپریشن)“ کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں‘ جس کی حکمت ِعملی وضع کرنے کے بعد ’ٹاؤن ون‘ حکام نے تاجروں اور دکانداروں کو ستائیس فروری سے 10 دن (پانچ فروری بروز ہفتہ تک) کی مہلت دی ہے تاکہ وہ رضاکارانہ طور پر (ازخود) تجاوزات ختم کر دیں بصورت دیگر انسداد ِتجاوزات کی بلاامتیاز اور مرحلہ وار کاروائی کے تحت سختی سے پیش آیا جائے گا اور کسی سے رو رعایت نہیں کی جائے گی۔ اِس سلسلے میں شاید پہلی مرتبہ تاجر تنظیموں کے نمائندوں کو بھی اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ تجاوزات کے خلاف کاروائی نہ صرف کامیاب بلکہ یکساں قابل ِقبول اور پائیداری کے لحاظ سے نتیجہ خیز ثابت ہو گویا پشاور میں تجاوزات کے خلاف طبل جنگ بج چکا ہے‘ صف بندی مکمل ہے جس کے لئے ٹاؤن ون انتظامیہ اور اہلکاروں کے علاوہ اِس کاروائی کی نگرانی کمشنر پشاور ڈویژن کریں گے۔ اِس بات کا بھی اصولی فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ اِس مرتبہ جن تجاوزات (سازوسامان) کو قبضے میں لیا جائے گا‘ اُس کی واپسی نہیں بلکہ نیلامی کی جائے گی اور زیادہ بڑے پیمانے پر فیصلہ کن کاروائی کیلئے اِس مرتبہ صرف ٹاؤن ون کے افرادی اور تکنیکی وسائل ہی پر بھروسہ نہیں کیا جائے گا بلکہ دیگر ٹاؤنز کے افرادی و تکنیکی وسائل سے طلب کئے جائیں گے۔ یہی مناسب وقت ہے کہ ماضی میں تجاوزات کے خلاف کی گئیں کاروائیوں کے انجام (ناکامی) کے محرکات پر غور کیا جائے اور اُن چند غلطیوں سے سبق سیکھا جائے جن کے باعث ہر مرتبہ پہلے سے زیادہ جامع حکمت عملیاں خاطرخواہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکیں اور عمومی مشاہدہ یہی ہے کہ تجاوزات کے خلاف ہر کاروائی کے بعد اِن کی تعداد (مسئلے کی شدت) میں کمی کی بجائے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ انسداد تجاوزات کے سلسلے میں ”پہلی غلطی“ اعلانات ہیں‘ جن کی وجہ سے تاجر اور دکاندار خبردار ہو جاتے ہیں اور کچھ ایسے بازار بھی ہیں جہاں کے دکاندار ٹاؤن ون اہلکاروں سے ”تعاون“ کرتے ہوئے ازخود تجاوزات چند روز کے لئے ختم کر دیتے ہیں۔ اِس طرح کسی مہم کے ابتدائی چند روز صورتحال مثالی نظر آتی ہے لیکن رفتہ رفتہ تجاوزات پھر سے قائم ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور بات وہیں جا ٹھہرتی ہے جہاں سے شروع ہوئی تھی۔ اگر حقیقت میں تجاوزات ختم کرنا ہی ہیں تو اِس کے لئے مہم اعلانات سے نہیں بلکہ رازداری سے شروع ہونی چاہئے۔ ”دوسری غلطی“ تجاوزات کے خلاف کاروائی کی مدت معین کرنے کی ہے کہ فلاں تاریخ سے فلاں تاریخ تک تجاوزات کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔ اِس طرح تجاوزات کرنے والوں کو ’ٹائم فریم (time-frame)‘ مل جاتا ہے اور وہ اِس سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کر لیتے ہیں۔ اِسی زمرے میں تجاوزات کے خلاف کاروائیوں کی تفصیلات پہلے سے جاری کرنا بھی ہے‘ جس کے نشانے پر آنے والے پیشگی تیاری کر لیتے ہیں۔ ”تیسری غلطی“ تجاوزات کی نشاندہی سے متعلق کی جاتی ہے کہ اِس میں مستقل و غیرمستقل تجاوزات کے درمیان تمیز نہیں کی جاتی اور تجاوزات کے خلاف سارا غم و غصہ غیرمستقل (عارضی) تجاوزات پر نکال دیا جاتا ہے جبکہ ہنگامہ جان بوجھ کر اِس قدر برپا کیا جاتا ہے کہ اِس میں مستقل تجاوزات کی جانب دھیان ہی نہ جائے۔ مثال کے طور پر پشاور شہر کی حدود سے گزرنے والے نکاسیئ آب کی گزرگاہوں (شاہی کٹھہ) پر چھتیں ڈال کر ہر قسم کی تعمیرات کی گئی ہیں۔ کئی ایسے مقامات بھی ہیں جہاں شاہی کٹھے کے وسط اور اِس کی نالیوں کے درمیان دیواریں اور ستون کھڑے کئے گئے ہیں تاکہ کثیرالمنزلہ تعمیرات کو سہارا دیا جا سکے اور اِس کھلم کھلا بے قاعدگی کی وجہ سے ”شاہی کٹھے“ سے نکاسیئ آب کی رفتار متاثر ہوتی ہے جبکہ بارش کی وجہ سے شاہی کٹھہ اور دیگر نکاسیئ آب کی گزرگاہیں اُبلنے سے اندرون شہر معمولات ِزندگی کئی روز تک مفلوج ہو جاتے ہیں۔ اِسی وجہ سے گندگی و غلاظت کے ڈھیر‘ بدبو اور تعفن بھی پھیلا رہتا ہے۔ کیا پشاور کی ضلعی انتظامیہ شاہی کٹھے سے تجاوزات ختم کرنے کے لئے بھی ”گرینڈ آپریشن“ کا آغاز کرے گی‘ جو اپنی جگہ ایک اہم ضرورت اُور اہل پشاور کا دیرینہ مطالبہ ہے؟