بس یہی بات ہے اچھی مرے ہر جائی کی

اور اب ایک بار پھر اکٹھے ہونے پر پابندیاں لگنے لگی ہیں، میڈیا سے لے کر سرکاری احکامات تک ایک ہی کہانی سنا رہے ہیں کہ سردی بڑھتے ہی ’’کووڈ“ پھر سے انگڑائی لے کر بیدار ہو گیا ہے اور گزشتہ دو برسوں سے یہی ہو رہا ہے کہ ”کو وڈ‘‘ کچھ عرصہ کے لئے منظر سے ہٹ جاتا ہے تو یار لوگ اپنی پرانی روش پر آ جاتے ہیں اور احتیاط کی چھتری بند کر کے ایک طرف رکھ دیتے ہیں، یہ کھیل بارش کے دنوں میں بھی خوب ہوتا ہے کہ ادھر چھتری بند ہوئی اور ادھر بادلوں کے مشکیزوں کے منہ کھل گئے اور پھر جتنی دیر میں لپٹی ہوئی چھتری کھول کر سر پر تانی جاتی ہے بارش رک جاتی ہے، لگتا ہے جیسے بارش نے بھی غالب کے محبوب کی سی ادائیں سیکھ لی ہیں۔
در پہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا
 جتنے عرصہ میں مرا لپٹا ہو ا بستر کھلا 
 برسات کے موسم میں بارش کی آنکھ مچولی تو بہر حال طبیعتوں کو کھلکھلائے رکھتی ہے،البتہ پھاگن کی جھڑی کپکپائے رکھتی ہے کیونکہ ابھی جاڑوں کا زور ٹوٹا نہیں ہوتا اور ایسے میں ہلکی بارش کا چھڑکاؤ بھی اس لئے کپکپا کر رکھ دیتا ہے کیونکہ پھاگن کا مہینہ اپنے جلو میں تیز ٹھنڈی ہوائیں لے کر آتا ہے جو ویسے بھی لرزہ بر اندام کر کے رکھ دیتی ہیں چہ جائیکہ کپڑے گیلے بھی ہوں، سو ”کو وڈ“ بھی بارش کی سی آنکھ مچولی سے بڑھ کر چوہے بلی کے کھیل پر اتر آیا ہے، ابھی سکھ کا ایک سانس بھی نہیں لے پاتے کہ نئے سرے سے اپنا چہرہ کراتا ہے، پہلی بار جب خوابیدہ ہو کر بیدار ہو اتو یار لوگوں نے اس کو مختلف علاقوں سے منسوب کر کے اسے کورونا وائرس کی مختلف اقسام قراد دے دیا۔ برطانوی،انڈین،برازیلین، کیلیفورنیا اور نہ جانے کیا کیا گویا دو سال پہلے چین کے ووہان شہر میں جنم لینے والا کوروناوائرس کو وڈ 2020 ء کئی چولے بدل کر ابھی کچھ دن پہلے اومیکرون کے نام سے موسوم ہو گیا تھا، مگر بات وہی ’کلیشے‘ کی ہے کہ، ”گلاب کا نام کچھ بھی رکھ دو اس کی خوشبو وہی رہے گی“ لیکن اس سے کورونا وائرس کو کوئی فرق نہیں پڑا، جیسے ایک صاحب نے چائے بناتے ہوئے چائے میں بھر بھر چمچ نمک ڈالنا شروع کیا تو کسی نے اسے روکا کہ نمک کیوں ڈال رہے ہو، تو مسکرا کر سرگوشی میں کہا، ”یہ نمک نہیں، چینی ہے“ جب اسے کہا گیا مگر ڈبے پر تو جلی حروف میں ”نمک“ لکھا ہوا ہے۔ تو کہنے لگے، ”میرے کچن میں چینی کی رسیا چیونٹیاں بہت ہیں، یہ انہیں دھوکہ دینے کے لئے ڈبہ پر نمک لکھا ہوا ہے“ بس یہی کچھ ماہرین طب کرونا وائرس کیساتھ کر رہے ہیں، مگر اب کے جو پلٹ کر یہ وائرس آیا ہے تو ہر کوئی اسے سیدھا سیدھا کرونا یا پھر ’کووڈ“ ہی کہہ رہا ہے بلکہ اب تو ’کو وڈ‘ کے ساتھ کوئی 19کی پخ بھی نہیں لگاتا کہ اب زمانہ 2022 ء کا ہے، اس لئے فیض کی زبان میں ”مرے دل مرے مسافر، ہوا پھر سے حکم صادر“ مگر یہ حکم گھر یا وطن بدر ہونے کا نہیں گھر بیٹھنے اور پھر سے مجلسی زندگی ترک کردینے کا حکم نامہ ہے، یہ اس لئے بھی بہت ضروری ہو گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر اسی وائرس کے حوالہ سے اتنا کچھ کہا، لکھا اور پڑھا جارہا ہے کہ اللہ کی امان اور زیادہ پوسٹس میں اسے سازش قرار دیا جارہا ہے اور اس ضمن میں مختلف ملکوں کے بڑے بڑے زعما ء کے وڈیوپیغامات بھی وائرل ہو رہے ہیں، اگر چہ بیشتر وڈیو پیغامات کی ”صحت“ بھی مشکوک ہے کیونکہ فی زمانہ اب ڈبنگ کے لئے اب باکمال سہولتیں میسر ہیں، ایک غیر ملکی سربراہ نے اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں دئیے گئے پیغام میں یہاں تک کہہ دیا کہ ”کرونا وائرس دراصل آپ کی شادی کی طرح ہوتا ہے شروع شروع میں آپ اپنی بیوی پر حاوی ہونے کی کوشش کرتے ہیں مگر پھر اسے ایک ناممکن کام سمجھتے ہوئے ”سمجھوتے کی پالیسی اپناتے ہوئے بیوی کے ساتھ ہی رہنا سیکھ جاتے ہیں،“ چلئے یہ بحث طلب بات سہی مگر اب تک یہی ہو تا چلا آ یا ہے کہ ادھر کرونا کے کیسزکم ہو نا شروع ہوئے ادھر ہم نے وائرس کے دنوں کی ساری احتیاط بالائے طاق رکھ دیں،حالانکہ اس طرح کے حالات کے حوالے سے کرونا وائرس سے کہیں پہلے فراز کہہ چکا تھا کہ 
 دوستو! یوں بھی نہ رکھو خم و پیمانہ کھلے
 چند ہی روز ہوئے ہیں ابھی میخانہ کھلے 
 مگر کیا کیا جائے کہ ذر ادھر کرونا نے ذراہا تھ ہولا رکھا یا جھپکی لی اور ادھر یار لوگوں نے ساری احتیاطی تدابیر کو بالائے طاق رکھ کر مل بیٹھنے کے کئی ایک پروگرام ترتیب دینا اس طرح شروع کر دئیے اور دعوتی رقعے اس طرح آنے لگتے ہیں،جس طرح کسی موسم میں اچانک شادی کارڈز سے میز بھر جاتی ہے، مگر ان ہی مجلسی تقریبات کے بیچوں بیچ اچانک کرونا وائرس ایک بار پھر کوئی نیا چولا پہن کر نکل آتا ہے اور عبد الاحد سازؔ کی طرح یار لوگوں کو بھی کہنا پڑ ا
 ہم تو سمجھے تھے کہ اے میر یہ آزار گیا 
اب کے چند ماہ کی خاموشی کے بعد کو وڈ کا پہلا بھر پور شکار کراچی تھا جہاں خود مجھے ہفتہ دس دن کے لئے ایک حمد و نعت کا نفرنس اور دو مشاعروں کے لئے تین دن پہلے جانا تھا سب تیاریا ں مکمل ہو چکی تھیں کہ کانفرنس کے منتظم علامہ طاہر حسین سلطانی کا فون آ گیا کہ کو وڈ کی وجہ سے کراچی انتظامیہ نے ان ڈور تقریبات پر پابندی لگا دی اس لئے کانفرنس مؤخر کی جارہی ہے، کانفرنس کی وجہ سے میں نے پشاور میں ہونے والی ایک تقریب کے لئے حامی نہیں بھری تھی یہ ملتوی ہوئی تو ان کو اپنی دستیابی سے مطلع کر دیا مگر جب اس کی بھی تیاری مکمل ہو گئی اور دعوتی رقعے تک بھیجے جا چکے تو گزشتہ رات مجھے بتایا گیا کہ ہوٹل کی انتظامیہ نے معذرت کر لی، نہ جانے اس طرح کی کتنی ہی تقریبات کا یہی حال رہا ہو گا۔ اب مجھے اس بات کی سچائی پر یقین آ رہا ہے کہ ہمیں اسی کے ساتھ سمجھوتہ کر کے رہنا سیکھنا ہو گا،سماجی فاصلوں کا خیال رکھنے اور کسی سے بھی ہاتھ ملانے سے خود کو روکنے سے زیادہ یہ بات سمجھنا ہو گی کہ ہم لاکھ مجلسی زندگی کے عادی سہی مگر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں کسی طرح کی شرمندگی یاخفت محسوس نہیں کریں گے اور لوگوں سے مختلف نظر آنے کے شوق میں ”ہیرو“ بھی نہیں بنیں گے، بھلے سے کو وڈ کہیں چلا بھی جائے مگر ہمیں پروین شاکر کی طرح اس بات پر یقین پختہ رکھنا چاہئے کہ 
 وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا 
 بس یہی بات ہے اچھی مرے ہر جائی کی