اکتوبر 2018ء: محکمہئ آثار قدیمہ خیبرپختونخوا نے پشاور شہر کی حدود میں 1800 ایسی تعمیرات کی نشاندہی کی‘ جنہیں آثار قدیمہ کے قانون کے تحت نہ صرف ’محفوظ قرار دیا گیا تھا بلکہ اِن کے مالکان کو بذریعہ نوٹسز آگاہ بھی کردیا گیا کہ وہ اِن مکانات میں کسی بھی قسم کی تبدیلی یا انہیں منہدم یا تعمیر کرنے سے قبل حسب قانون محکمہئ آثار قدیمہ سے تحریراً رجوع کریں گے اور اِن مکانات میں ردوبدل مذکورہ محکمے کی اِجازت سے مشروط ہوگا۔ اِس قانون کے تحت پشاور شہر کے قدیمی حصے کے وہ سبھی مکانات محفوظ قرار پائے تھے جن کی عمریں 100 سال یا اِس سے زیادہ تھیں۔ لائق توجہ امر یہ ہے جن مکانات کو ’محفوظ‘ قرار دیا گیا اُن میں بوسیدہ اور خستہ حال مکانات کا خیال نہیں رکھا گیا اور ایسے پرانے مکانات میں رہنے والوں کو جب معمولی مرمت بھی کروانا پڑتی ہے تو آثار قدیمہ کے قانون کے تحت محکمے سے اجازت لینی پڑتی ہے جو آسان عمل نہیں ہے۔پشاور کے پرانے شہر کی زندگی‘ یہاں کے گلی کوچے اور فن تعمیر توجہ طلب اور شہر کے مضافاتی و نوآباد حصوں سے مختلف ہے۔ یہاں مکانات ایک دوسرے سے پیوست اور لوگ ایک دوسرے سے مل جل کر رہتے ہیں۔ اگرچہ گلی محلوں میں اخوت و بھائی چارے کا وہ ماحول اب دکھائی نہیں دیتا لیکن پھر بھی پشاور کے قدیمی حصوں میں چونکہ ایک ہی خاندان اور بول چال کے رہنے والوں کی اکثریت ہے‘ اِس لئے ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں شریک رہنے والے آج بھی مل جل کر رہتے ہیں تاہم مسئلہ یہ ہے کہ سو سال سے قدیم اِن علاقوں میں صرف مکانات ہی نہیں بلکہ ہر چیز ہی آثار قدیمہ کے قانون کے تحت محفوظ قرار دی جا چکی ہے اور ایسی صورت میں اِن متوسط و غریب طبقات سے تعلق رکھنے والوں کے لئے گزربسر آسان نہیں کہ اگر وہ اپنے محدود مالی وسائل میں رہتے ہوئے مکان کی معمولی سی تعمیر و مرمت بھی کروانا چاہیں تو اِس کے لئے محکمہئ آثار قدیمہ سے اجازت لینا پڑتی ہے اور اجازت نہ لینے کی صورت میں جرمانہ عائد کرنے کے علاؤہ متعلقہ تھانے میں ایف آئی آر بھی درج کروا دی جاتی ہے اگرچہ ایسے واقعات بہت کم ہیں لیکن پھر بھی مذکورہ قانون نظرثانی چاہتا ہے کہ اِس میں بوسیدہ اور خستہ حال مکانوں کو تعمیر و مرمت کی رعایت ہونی چاہئے۔ پشاور کے قدیمی حصوں میں رہنے والوں کو گلہ ہے کہ اگر اُن کے مکانات محفوظ قرار دیئے گئے ہیں اور عمومی حالات میں اِن کی تعمیرومرمت کرنے کی بھی اجازت نہیں تو پھر حکومت خصوصی قرضہ جات فراہم کرے جس کے ذریعے بوسیدہ اور خستہ حال مکانات کی تعمیرومرمت ممکن بنائی جا سکے۔ صرف مکانات کو آثار قدیمہ قرار دینا کافی نہیں‘مذکورہ قانون و قواعد پر نظرثانی کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اہل پشاور کا مطالبہ ہے کہ یک طرفہ اور سخت گیر قوانین و قواعد لاگو کرنے کی بجائے آثار قدیمہ سے جڑے ہوئے ’انسانی پہلوؤں‘ کو بھی مدنظر رکھا جائے کیونکہ پشاور جو بھی ہے بہرحال ایک انسانی آبادی کا نام ہے اور کسی قدیمی (پرانے) گھر کے ڈھانچے سے زیادہ اُس میں رہنے والوں کے حقوق اور سہولت کو مدنظر رکھنا چاہئے۔