مولانا کاانبساط و اضطراب 

موسمی پرندے ایک بارپھرپرواز بھرنے کی تیاریوں میں مشغول ہیں‘صلاح ومشورے جار ی ہیں‘ملاقاتیں ہورہی ہیں‘رابطے تیز کردیئے گئے ہیں۔ہوا کارخ سونگھ کر اپنی سیاست کارخ متعین کرنے والوں کو نیا گھونسلہ دکھائی دینے لگاہے۔صوبہ میں بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلہ کے بعد سے خفیہ رابطوں کی سیاست ایک بارپھر زندہ ہوگئی ہے۔جے یو آئی نے پہلے مرحلہ میں کامیابی کیا حاصل کی کہ دور کی کوڑی لانے والے ستاروں کاحسا ب کتا ب کرنے بیٹھ گئے۔یہ تاثر تقویت پکڑنے لگاہے کہ شاید اس بارہاتھ جے یو آئی کے سر پر ہوگا اسی لئے الیکٹیبلز جے یوآئی کے ساتھ ہاتھ ملانے کے لئے بیقرار دکھائی دینے لگے ہیں۔بہت کم لوگوں کو یہ بات معلو م ہوگی کہ جب صوبہ میں بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کااعلان کیاگیا تو جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے واضح طورپر بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے کی مخالفت کی تھی اس وقت انہوں نے جو مؤقف اختیار کیا تھا اس میں کافی وزن تھا انکاکہناتھاکہ اس وقت ہم تحریکی مرحلہ میں ہیں اور تحریکی مرحلہ کے دوران الیکشن میں حصہ لینے کامطلب سسٹم پراعتماد کااظہار ہے۔ظاہر ہے تحریکیں تبھی چلا کرتی ہیں جب سسٹم ناقابل اعتماد اور ناقابل برداشت ہوجائے لیکن اگر سسٹم کاحصہ ہی بننے کی کوشش کی جائے تو پھر تحریکیں نہیں چلا کرتیں محض حزب اختلاف کاکردار نبھانا باقی رہ جاتاہے۔مولانا نے بار بار صوبائی جماعت کو پیغام دیا کہ الیکشن میں حصہ نہیں لینا چاہئے مگر صوبائی جماعت کااستدلال اس سے مختلف تھا چنانچہ صوبائی قیاد ت نے طویل مشاورتی عمل کے بعد صوبہ میں بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے کااعلان کرتے ہوئے اس حوالہ سے اپنی سفارشات مرکزی قیادت کو بھی بھجوادی تھیں جس کے بعدمولانا فضل الرحمان نے اپنی مرضی ٹھونسنے کی بجائے بادل نخواستہ الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دے دی مگر یہ حقیقت ہے کہ جے یو آئی نے جو شاندارفتح حاصل کی اس کااندازہ نہ تو میڈیا کو ہوسکانہ ہی خودجے یو آئی کو اس کااندازہ تھا البتہ یہ حقیقت ہے کہ جے یو آئی کے کا رکن دیگرجماعتوں کی نسبت کہیں زیادہ تیاریوں کے ساتھ میدان میں موجود تھے کیونکہ صرف جے یو آئی ہی روز اول سے موجودہ حکومت کے خلاف خم ٹھونک کر میدان نکلی ہوئی تھی ان تین ساڑھے تین سال میں جے یو آئی نے درجنوں ملین مارچزکئے،کانفرنسوں کاانعقاد کیا اور دھرنے دیئے اسلام آباد میں کئی ہفتہ تک یک وتنہا اس نے دھرنا دیئے رکھا تب وعدوں کے باوجودمسلم لیگ ن‘پیپلز پارٹی‘اے این پی اور دیگر جماعتیں پیچھے ہٹ گئی تھیں اورپھر مولانانے بڑی مہارت کے ساتھ اس آزمائش سے اپنے کارکنوں کو نکالا تاہم پھر بھی انہوں نے کارکنوں کو آرام سے بیٹھنے نہ دیا حتیٰ کہ یہ دکھائی دینے لگاتھاکہ مولانا اپنے کارکنوں کو تھکا رہے ہیں لیکن تبھی کارکنوں کو مسلسل متحرک اورفعال رکھنے کاصلہ انہیں بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلہ میں کامیابی کی صورت میں مل گیا۔ پشاور‘کوہاٹ اوربنوں کی میئر شپ حاصل کرنا مجموعی کامیابی سے کہیں زیادہ اہم ہے یہی وجہ ہے کہ اس وقت کئی جماعتیں اگلے مرحلہ میں جے یو آئی کے ساتھ انتخابی ایڈ جسٹمنٹ کے لئے رابطوں میں مصروف ہیں۔مسلم لیگ ن مانسہرہ کے ساتھ ساتھ‘سوات اورشانگلہ میں بھی جے یو آئی کے ساتھ جائنٹ وینچر کی خواہشمندہے جبکہ جماعت اسلامی چترال کی حدتک اشتراک عمل چاہتی ہے۔اسی طرح شمولیتوں کے لئے انفرادی رابطے بھی تیز ہوچکے ہیں حتیٰ کہ گذشتہ عام انتخابات میں جن حلقوں میں جے یو آئی کو امیدوار ڈھونڈنے پڑتے تھے اب ان حلقوں کے لئے کئی کئی خواہشمند اپنی اپنی سی ویز لئے مرکزی اور صوبائی قیادت کے پاس حاضری دینے میں مصروف ہیں جس پر ان کارکنوں میں تشویش بھی پائی جاتی ہے جو کٹھن حالات میں جماعت کے ساتھ جڑے چلے آرہے ہیں اور جماعت کو ایسے لوگوں کو مایوسی سے بچانا بھی ہوگا۔ خود مرکزی قیادت حیران ہے کہ کس کس کے لئے دروازے کھولے جائیں کیونکہ بسا اوقات نئے مہمانوں کی زیادہ تعدا د سے مسائل بھی زیادہ ہی جنم لیتے ہیں تاہم دوسری طرف مولانا خیبرپختونخوا کامیلہ لوٹ کر خوش توہیں مگر ساتھ ہی اس وقت وہ ایک خاص قسم کے اضطراب سے بھی گذر رہے ہیں کارکن تو اس کامیابی کو ہی آخری مرحلہ سمجھ کر خوشیاں منارہے ہیں لیکن قیادت کا دماغ کہیں اور اٹکاہواہے۔ظاہرہے کہ حکمران جماعت سے ناراض لوگوں نے اپنے دل کی بھڑاس نکال لی ہے اب پی ٹی آئی کے لئے اگلے عام انتخابات میں زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرناپڑے گا۔یہ بات یقینابعض قارئین کے لئے حیران کن ہوگی کہ اپوزیشن جماعتوں کے کئی رہنما بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کے حق میں نہیں تھے۔یہ لوگ چاہتے تھے کہ بلدیاتی الیکشن سے قبل عام انتخابات منعقد ہونے چاہئیں کہ اسی میں ہمارا فائدہ ہے اور اس کے لئے ان کے پاس بہت عمدہ دلیل بھی تھی۔جے یو آئی ہی کے ایک رہنما نے بلدیاتی الیکشن سے قبل راقم کے ساتھ ایک مجلس میں اس امر کااظہارکیاتھاکہ اگر الیکشن ملتوی ہوتے ہیں یاپھرتاخیر کاشکارہوجاتے ہیں تو اس سے ہمیں بہت زیادہ سیاسی فائدہ مل سکتاہے۔استفسارپر انہوں نے بتایاکہ مہنگائی کی ماری قوم اس وقت شدیدغصہ میں ہے اور اگر بلدیاتی الیکشن منعقدہوجاتے ہیں تو خدشہ ہے کہ لوگوں کاغصہ اسی الیکشن میں اتر جائے گا جس کے بعد اگلے عام انتخابات میں حکومت کیلئے مشکلات کم ہوجائیں گی ساتھ ہی جے یو آئی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کو یہ خدشہ بھی ہے کہ نئے سسٹم کو سمجھنے میں بھی چھ ماہ سے ایک سال تک کاعرصہ لگ جائے گا جبکہ اس دوران صوبائی حکومت کسی بھی صورت ان تحصیلوں کو فنڈز جاری نہیں کرے گی جہاں پر اپوزیشن جماعتوں کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں یوں ایک مسلسل سرپھٹول کی صورت حال تو ہوگی ہی لیکن جب 2023ء کے اواخر میں عام انتخابات منعقد ہونے والے ہونگے تو اگر ایک طرف قوم پی ٹی آئی کے پانچ سال دوراقتدارکااحتسا ب کریگی تو ساتھ ہی اپوزیشن کے بلدیاتی سربراہان کی ڈیڑھ سے پونے دوسالہ مدت کابھی پورا پورا حساب کتاب کیاجائے گا۔گویا ایک طرح سے پھر پی ٹی آئی اور اپوزیشن کی مذکورہ جماعتیں متعلقہ علاقوں میں پھرایک ہی صف میں دکھائی دیں گے۔بلدیاتی الیکشن نہ ہونے کی صورت میں اپوزیشن کو یہ فائدہ تو حاصل رہتاکہ اگلے عام انتخابات میں پی ٹی آئی ہی ووٹروں کے دباؤ کاشکاررہتی مگر اب صورت حال مختلف دکھائی دینے لگی ہے اوریہی مولانا کے لئے اضطراب کاباعث بھی ہے جہاں تک لانگ مارچ کاتعلق ہے توفی الوقت مولانا اس کے لئے پوری طرح سے تیار ہیں تاہم قرین قیاس ہے کہ اگر اعلیٰ ترین سطح پر کوئی رابطہ ہوتاہے تو تاریخ میں تبدیلی کی جاسکتی ہے فی الوقت کسی طرف سے بھی 23مارچ کی تاریخ کی تبدیلی کے لئے کوئی رابطہ نہیں ہواہے حالانکہ کم از کم حکومت کو تو ہر صورت اپوزیشن کے ساتھ تاریخ کی تبدیلی کے لئے رابطہ کرناچاہئے غالباً حکومت بعد از خرابی بسیار کے فارمولے کے مطابق ہی چلے گی اور لانگ مارچ سے ایک دو دن قبل پھر پی ڈی ایم کے ساتھ رابطے کرکے تاریخ تبدیل کرنے کا مطالبہ کیاجائے گا جو اس وقت پور اکرنا خود پی ڈی ایم کے لئے بھی آسان نہیں ہوگا جہاں تک لانگ مارچ کاتعلق ہے تو ابھی 23مارچ بہت دورہے فی الوقت تو مولانا خیبرپختونخوا میں اپنی جماعت کی غیر متوقع حدتک بھرپور کامیابی سے پوری طرح لطف اندوز ہونے میں مصروف ہیں ان کے دروازے کارکنوں کے لئے کھلے ہیں جو مولانا کی بیماری اور تھکاوٹ سے بے نیاز ہر روز گاڑیا ں بھربھراسلام آبادجارہے ہیں۔