انسانیت کی خدمت کا عظیم مشن 

انیسویں صدی کے انقلابی شاعر اور شہرہ آفاق کتاب مد وجذر اسلام کے خالق مولانا الطاف حسین حالی قرآن کریم کی سورہ بقرہ کے حوالے سے تخلیق انسانی کے مقاصد کی منظوم انداز میں تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کتاب ہدایت کا پہلا سبق یہ ہے کہ جن و انس اور چرند پرند سمیت تمام جانداروں کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ تمام انسان اللہ تعالیٰ کے کنبے کے افراد ہیں ان میں اللہ تعالیٰ کو وہ لوگ پسند ہیں جو ان کی مخلوق سے دوستی، ہمدردی اور تعاون کا رشتہ قائم کریں۔ صنف، قومیت، لسانی، علاقائی، مسلکی اور رنگ و نسل کے تعصبات سے بالاتر ہوکر سب کی بلاامتیاز خدمت کریں۔عبادت، دین اور ایمان کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا میں انسان دوسرے انسانوں کے کام آئیں۔ ان کے دکھوں کا مداوا کریں، ان کے غم بانٹیں ان کی خوشیوں میں شریک ہوں اور ان کے ساتھ احترام کا رشتہ قائم کریں۔فلاحی معاشرہ قائم کرنے کے لئے پورے معاشرے کو رفاہ عامہ کا طرز عمل اختیار کرنا پڑتا ہے۔ عدل و انصاف پر مبنی مدینہ کی فلاحی ریاست کا بھی یہی تصور ہے۔ فلاحی معاشرے کا قیام صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے اس کے لئے معاشرے کے تمام طبقوں کو اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ ملک میں ایسے ادارے موجود ہیں جو معاشرے کو فلاح کے راستے پر ڈالنے کے لئے اپنی بساط سے بڑھ کر کام کررہے ہیں۔ان میں ایدھی فاونڈیشن کے بعد الخدمت کا نمبر آتا ہے۔ خیبر پختونخوا میں الخدمت کے 18ہزار رضاکار دکھی انسانیت کی مدد کے لئے ہمہ وقت مصروف عمل ہیں۔صوبے کے تمام اضلاع میں فلاحی تنظیم کے دفاتر موجود ہیں جہاں بھی سیلاب، زلزلہ، قدرتی آفت اور حادثات رونما ہوتے ہیں حکومتی اداروں سے پہلے الخدمت کے رضاکار وہاں پہنچ کر ریسکیو آپریشن شروع کرتے ہیں۔ ان رضاکاروں کو آفات سے نمٹنے کی ہر سال باقاعدگی سے تربیت دی جاتی ہے۔ ادارے کی فلاحی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے الخدمت کے صوبائی سربراہ نے بتایا کہ آرفن فیملی سپورٹ پروگرام کے تحت ملک بھر میں 17ہزار یتیم بچوں کی کفالت کی جارہی ہے ہر یتیم بچے کی بیوہ ماں کے نام پر بینک میں اکاؤنٹ کھولا گیا ہے جس میں ماہانہ تین ہزار روپے ڈالے جاتے ہیں۔ان بچوں کے تعلیمی اخراجات بھی ادارہ اٹھاتا ہے۔ بیوہ خواتین کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دینے کے لئے پچاس ہزار تک کی مالی امداد دی جاتی ہے۔ فلاحی مرکزآغوش میں پرورش پاکر بالاکوٹ سے تعلق رکھنے والے بچے نے میڈیکل کی تعلیم مکمل کی ہے اور ڈاکٹر بن گیا ہے جبکہ ایک سٹریٹ چلڈرن نے سافت وئر انجینرنگ کی ڈگری حاصل کرلی ہے۔ صوبے کے چھ اضلاع میں آغوش کے مراکز قائم ہیں الخدمت بلڈ بینک سے تھیلی سیمیا میں مبتلا 530بچوں کو صاف خون فراہم کیاجارہا ہے۔ صوبے میں الخدمت کے 92ایمبولنس قدرتی آفات، حادثات اور ہسپتالوں تک مریضوں کو پہنچانے کے لئے چوبیس گھنٹے رواں دواں ہیں۔ہر ضلع میں ایک ایمبولنس موجود ہے صوبے کی ضروریات کے پیش نظر مزید 30ایمبولنس گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ پشاور میں الخدمت کی دو جنازہ گاڑیاں ضرورت مند لوگوں کے لئے دستیاب ہیں مزید تین جنازہ گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ کیاگیا ہے۔ الخدمت نے کورونا وباء کی شدت کے باعث اپنی 48ایمبولنس گاڑیاں صوبائی حکومت کے تصرف میں دی تھیں۔ ہسپتالوں میں چھ مہینے تک کورونا کے 60مریضوں کو روزانہ تین وقت کا کھانا فراہم کیاجاتا رہا۔ صوبائی سربراہ نے بتایا کہ صوبے میں قائم آغوش مراکز میں بارہ ہزار بچوں کی کفالت کی جارہی ہے۔ ملک بھر میں الخدمت کے 42ہسپتال دکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں جہاں نادار مریضوں کو انتہائی مناسب قیمت پر بہترین تشخیصی اورطبی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔الخدمت کے پلیٹ فارم سے صوبے کے فنکاروں کی بھی مدد کی جاتی ہے جبکہ کئی غیر مسلم طلباو طالبات کو بھی وظائف دیئے جارہے ہیں۔ خیبر پختونخوا حکومت کو حیات آباد میں ڈزاسٹر سینٹر کی تعمیر کے لئے اراضی فراہم کرنے اور نیلامی کی سرکاری گاڑیاں ایمبولنس میں تبدیل کرنے کے لئے الخدمت کو فراہم کرنے کی درخواست کی گئی ہے ابھی تک حکومت کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔حقیقت یہ ہے کہ الخدمت جیسے فلاحی ادارے ریاست مدینہ کے خواب کو تعبیر کاجامہ پہنانے میں حکومت کی مدد کر رہے ہیں وفاقی اور صوبائی حکومت کے ساتھ ملک کے مخیر لوگوں کو بھی انسانیت کی بے لوث خدمت میں مصروف ان فلاحی اداروں کا دست و بازو بنناچاہئے تاکہ اسلامی فلاحی معاشرے کی تشکیل کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے۔