ترقی کا راز

برطانوی پارلیمینٹ میں ’وزیر ٹرانسپورٹ (سیکرٹری آف اسٹیٹ فار ٹرانسپورٹ) سے ایک رکن نے ’ایک سوال‘ پوچھا کہ ”حکومتی اداروں کے پاس کتنی سرکاری گاڑیاں ہیں اور یہ سرکاری گاڑیاں کون کونسا ایندھن استعمال کرتی ہیں؟“ ذہن نشین رہے کہ سوال میں ہر سرکاری محکمے اور ہر وزیر کو دی گئی گاڑیوں کی تفصیلات طلب کی گئیں جس کا جواب دیتے ہوئے وزارت ٹرانسپورٹ کے سیکرٹری کرس ہیٹن ہیرس (Chris Heaton Harris) نے کہا کہ ایک فہرست (جدول) ایوان میں پیش کی جس میں ہر محکمے کو دی گئیں گاڑیاں اور اُن میں استعمال ہونے والے ایندھن جیسی دو بنیادی تفصیلات درج تھیں چونکہ برطانوی پارلیمینٹ خود کو کسی آئین اور قواعد کا پابند نہیں بنائے ہوئے اِس لئے قومی امور سے متعلق اِن کی فیصلہ سازی اور قومی ترجیحات کا تعین یا حکومتی اخراجات اور عوام پر ٹیکس نافذ کرنے یا اُن کی شرح میں تبدیلی جیسے سبھی فیصلے پارلیمینٹ کے اراکین کے باہمی غوروخوض اور بحث و مباحثے کے بعد رائے شماری کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں تاکہ قومی وسائل سے درست استفادہ کیا جا سکے۔ بادشاہت اور جمہوریت کو ساتھ ساتھ لیکر چلنے والے برطانیہ میں پارلیمان مضبوطی اور پارلیمانی نظام کے طریقہئ کار (پس منظر) کو ذہن میں رکھتے ہوئے سرکاری گاڑیوں اور فراہم کئے جانے والے ایندھن سے متعلق سوال کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جہاں اراکین پارلیمینٹ خود کو ایک عوام کے سامنے ہمہ وقت جوابدہ سمجھتے ہیں اور وہاں جمہوری احتساب کا مطلب ایک انتخابات سے دوسرے انتخابات تک کا عرصہ نہیں ہوتا۔ پارلیمان کی کاروائی ٹیلی ویژن کے علاوہ سوشل میڈیا (انٹرنیٹ) سے براہ راست نشر ہوتی ہے جبکہ برطانیہ میں آج بھی ریڈیو نشریات کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اور وہاں ہر ریاست (صوبے) کے علاؤہ موضوعات کے حوالے سے الگ الگ سرکاری ریڈیو سٹیشن موجود ہیں حتیٰ کہ مختلف قومیتوں کیلئے حکومت نے مختلف ریڈیو سٹیشن بنا رکھے ہیں جبکہ نجی ریڈیو اس کے علاوہ ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ مختلف زبانوں اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والوں کیلئے برطانیہ میں چھ سو سے زیادہ ریڈیو سٹیشن جبکہ چارسو اَسی ٹیلی ویژن چینلز ہیں جن کی نشریات سارا سال‘ چوبیس گھنٹے جاری رہتی ہیں اور اِن دونوں ذرائع (ریڈیو اور ٹیلی ویژن) کے علاوہ سوشل میڈیا (اِنٹرنیٹ) کے ذریعے بھی قومی سیاست بالخصوص منتخب نمائندوں کی کارکردگی کا بیان اور موازنہ نشر کیا جاتا ہے۔ تصور کیا جا سکتا ہے کیا ذرائع ابلاغ نمائندوں کی اِس قدر نگران آنکھیں اور کان کس طرح ہر چھوٹی بڑی خبر (پیشرفت) پر نظر رکھے رہتے ہیں۔ بسا اوقات کوئی ایک موضوع کئی کئی ہفتوں تک ’نیوز ایجنڈا‘ بنا رہتا ہے اور پارلیمانی اراکین کے علاوہ مختلف شعبوں کے ماہرین بالخصوص عوام اُس سے متعلق اپنی اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں اور اِس عوامی اظہار رائے کا بھی قومی پالیسیوں پر اثر ہوتا ہے۔ جمہوریت میں کوئی ایک شخص اور کوئی ایک اِدارہ ”عقل ِکل“ نہیں ہوتا جس کی مثالیں یوں تو دنیا کے کئی جمہوری ممالک کی قومی ترجیحات وضع کرنے والوں کے درمیان دیکھی جا سکتی ہیں تاہم برطانیہ اِس کی عمدہ مثال ہے۔ذکر ہو رہا تھا کہ برطانوی پارلیمینٹ میں سرکاری گاڑیوں کی تفصیلات بمعہ ایندھن طلب کی گئیں جس کا جواب دیتے ہوئے کہا گیا کہ تمام سرکاری محکموں بشمول وزیروں اور وزیراعظم کو دی جانے والی سرکاری گاڑیوں کی کل تعداد 45 ہے۔ برطانوی پارلیمینٹ میں حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے اراکین کی نظر میں یہ تعداد بہت زیادہ ہے اور قومی وسائل کی بچت کے لئے جن محکموں یا وزارتوں کے پاس ایک سے زیادہ گاڑیاں ہیں وہ واپس ہونی چاہیئں۔ برطانوی وزیراعظم کو صرف ایک گاڑی دی گئی ہے جبکہ کئی ایسے وزیر بھی ہیں جنہیں سرکاری گاڑی نہیں دی گئی پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک اُور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک کے درمیان فرق کی ایک بنیادی وجہ (ترقی کا راز) یہ بھی ہے کہ وہاں ریاستی وسائل کی ہر ممکنہ بچت کی جاتی ہے جس کی مثال اُن کے ہاں بولا جانے والا یہ محاورہ بھی ہے کہ ”ایک یونٹ بجلی بچانے کا مطلب ایک یونٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت حاصل کرنا ہے۔“ اِس محاورے کو صرف بجلی ہی نہیں بلکہ دیگر سرکاری وسائل کے تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جیسا کہ ایک لیٹر پیٹرول بچانے کا مطلب یہ ہے کہ ایک لیٹر پیٹرول پیدا کیا جائے یا ایک سرکاری گاڑی کا بیجا استعمال روکنے کا مطلب ہے کہ عوام کی بہبود کیلئے ایک سرکاری گاڑی میں اضافہ کیا جائے۔ برطانوی طرز حکمرانی سے حاصل اسباق میں صرف وسائل کی بچت ہی نہیں بلکہ وسائل کی پیداوار (ترقیاتی امور بالخصوص مستقبل کی ضروریات وضع کرتے ہوئے سرمایہ کاری) بھی ہے۔ عوام کے منتخب نمائندے مختلف شعبوں کے ماہرین اور تحقیق کار اداروں سے رابطے میں رہتے ہیں جس کے لئے ذرائع ابلاغ کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اور اراکین پارلیمینٹ کی قدم قدم پر رہنمائی کرنے کے لئے ذرائع ابلاغ زیادہ محنت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔