حکومت نے 114سال بعد انگریزوں کے وضع کردہ سول و فوجداری قوانین میں اصلاحات کی ہیں۔تاکہ مروجہ قوانین کو عصر حاضر کے تقاضوں اور ضروریات سے ہم آہنگ بنایاجاسکے۔ضابطہ فوجداری میں ترامیم کے تحت خواتین کی جاسوسی، انہیں گواہی کے لئے کوئلے پرچلانااور کسی کو پانی میں پھینکنا بھی قابل دست اندازی پولیس جرم تصور ہوگا، آڈیو، ویڈیو اورای میلز بھی شواہد تصور ہوں گے، کسی شہری کو غیر قانونی پولیس حراست میں رکھنے پر سات سال تک قید کی سزا ہوگی اور ایس ایچ اوکیلئے گریجویٹ ہونا لازمی ہوگا،ملزمان کے طبی معائنے کے لیے میڈیکل بورڈ میں ماہر نفسیات بھی شامل ہوں گے۔جس پولیس سٹیشن میں مقدمات کا بوجھ زیادہ ہوگا وہاں کا سربراہ اے ایس پی رینک کا ہو گا۔مفرور ملزمان کے شناختی کارڈ اور بینک اکاونٹس بلاک کر دئیے جائیں گے جبکہ جلسے جلوسوں میں اسلحہ لے کر جانے کی اجازت نہیں ہو گی، دفعہ 161 کے تحت ہونے والے بیانات کی آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ بھی کی جائے گی، پراسیکیوٹر تفتیش سے مطمئن نہ ہو تو مزید یا ازسرنو تحقیقات کا تقاضا کر سکے گا۔ فوجداری مقدمات کا ٹرائل 9 ماہ میں ہو گا، ہر ماہ ہائیکورٹ کو پیشرفت رپورٹ سے آگاہ کیا جائے گا۔ غیر سنجیدہ مقدمہ بازی پر سیشن کورٹ 10 لاکھ روپے تک جرمانہ کر سکے گی اور 9 ماہ میں ٹرائل مکمل نہ ہونے پر ٹرائل کورٹ ہائیکورٹ کو وضاحت دینے کی پابند ہو گی، ٹرائل کورٹ کی وضاحت قابل قبول ہوئی تو مزید وقت دیا جائے گا۔عدالت میں گواہ اپنے بیان کے متن سے اختلاف کرے تو ریکارڈنگ سے استفادہ کیا جائے گا۔ترامیم کے مطابق فوجداری مقدمات میں تین دن سے زیادہ کا التوا نہیں دیا جا سکے گا، منشیات کے کاروبار سے متعلق مقدمات میں سزائے موت ختم کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے مجرم کو باقی تمام زندگی جیل میں گزارنے کی سزا ہو گی۔انسان کے بنائے ہوئے قوانین وقتی ضروریات کے مطابق ہوتے ہیں ان میں وقتاً فوقتاً ترامیم کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ ایک صدی قبل اور آج کے معروضی حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔حکومت اگر سول اور فوجداری قوانین میں ترامیم کیلئے عوامی سطح پر مشاورت کرتی تو کافی مفید تجاویز اور سفارشات آسکتی تھیں۔ ایس ایچ او کیلئے گریجویٹ ہونے کی شرط خوش آئند ہے رشوت ستانی، کمیشن اور بھتہ لے کر غیر قانونی کام کی اجازت دینے پر بھی کڑی سزائیں مقرر ہونی چاہیئں۔اور ان سزاؤں پر عمل درآمد بھی ہونا چاہئے۔تفتیش کا عمل شفات بنانا سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کیلئے ناگزیر ہے۔ فوجداری قوانین میں اصلاحات ایک بہت خوش آئند عمل ہے تاہم اس کو یہاں پر رکنا نہیں چاہئے بلکہ تمام سرکاری محکموں، کارپوریشنوں، ڈویژنوں اور نیم سرکاری اداروں کے مروجہ قوانین میں بھی موجودہ وقت کی ضروریات کے مطابق اصلاحات اور ترامیم ضروری ہیں۔ اداروں کے قیام، سرکاری افسروں اور اہلکاروں کی تقرری اور قوانین وضع کرنے کا بنیادی مقصد عوام کو سہولت فراہم کرنا ہے۔ جب اداروں سے عوام کو ریلیف نہ ملے تو ان کے قیام کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔