یہ وقت ربیع کی فصل کی کاشت مکمل ہونے کا ہے جس کا آغاز عام طور پر اکتوبر نومبر میں ہو جاتا ہے۔ کھاد کی عدم دستیابی یا کمی کے باعث کاشتکاروں نے مجبوراً مہنگے داموں کھاد خریدی اور مارکیٹ میں کھاد دستیاب تو ہے لیکن اِس کی قیمت زیادہ ہے اور صرف یہی سیزن نہیں بلکہ اگلی فصل کیلئے مہنگے داموں کھاد خریدنا پڑے گی۔ زرعی پیداواری ضروریات ہر سال مہنگی ہو رہی ہیں۔ سال دوہزاربیس میں خریف کی کاشت کیلئے ڈائی امونیم فاسفیٹ (ڈی اے پی) کھاد کا ایک تھیلا چونتیس سو روپے جبکہ سال دوہزار اکیس میں وہی تھیلا نو ہزار دوسو روپے اور سال دوہزاربائیس میں آٹھ سو روپے مزید اضافے کے ساتھ ’ڈی اے پی‘ کھاد کی فی بوری کی قیمت دس ہزار روپے تک پہنچ گئی ہے۔ ڈی اے پی یا ڈی پی کی ضرورت بوائی کے وقت پڑتی ہے اور وہ انتہائی نازک وقت ہوتا ہے کیونکہ اگر کھاد ملنے میں تاخیر ہو یا حسب ضرورت (رقبہ) کھاد نہ ملے تو اِس سے فصل کی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔کھاد کے بروقت میسر نہ آنے سے خیبرپختونخوا کے کاشتکار بھی متاثر ہیں اور اندیشہ ہے کہ اِس مرتبہ کم زرعی پیداوار کی وجہ سے خوراک کی قلت جیسی صورتحال سے واسطہ رہے گا جبکہ کاشتکاروں کا نقصان اپنی جگہ رہے گا۔ کاشتکاروں کے بقول رواں برس کھاد بحران کی وجہ سے خیبرپختونخوا میں تیس سے چالیس فیصد تک فصل کم ہونے کا امکان ہے۔ ذہن نشین رہے کہ گندم انتہائی بنیادی فصل ہے۔ اگر گندم کی فصل کم ہو یا اِس پر لاگت زیادہ آئے تو دونوں صورتوں میں آٹے کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اور اگر موجودہ صورتحال برقرار رہتی ہے تو چند ماہ بعد آٹے کا بیس کلو والا تھیلے کی قیمت میں پانچ سو روپے تک اضافہ ہوگا۔ گندم کے موجودہ سیزن میں فصل کو ستمبر اور نومبر میں کھادی کی ضرورت تھی تاہم اِس عرصے میں کھاد یا تو دستیاب نہیں تھی یا پھر اِس کی قیمت زیادہ تھی جو کاشتکاروں کی قوت خرید سے زیادہ تھی۔ توجہ طلب ہے کہ کاشتکاروں سے کس طرح توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ مہنگے داموں کھاد و دیگر پیداواری ضروریات خریدیں لیکن فصل (گندم) سستے داموں فروخت کریں زرعی معیشت و معاشرت میں گندم کی فصل سے حاصل ہونے والے بھوسے سے مال مویشیوں کو خوراک ملتی ہے اور یہ دودھ اور گوشت کی پیداوار حاصل کرنے کا بنیادی ذریعہ ہیں۔حالیہ ”کھاد بحران“ کی چار بنیادی وجوہات ہیں۔ خیبرپختونخوا اسمبلی کے اراکین اور کاشتکاروں کی نمائندہ تنظیموں نے اِس بحران متعلق قبل از وقت خبردار کرنا شروع کر دیا تھا تاہم اراکین اسمبلی اور کاشتکاروں کی جانب سے توجہ دلاؤ نوٹس پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی۔ کھاد کمی کی دوسری وجہ کھاد تیار کرنے والی صنعتوں کو گیس کی فراہمی نہ ہونا ہے جس کی وجہ سے اندازہ ہے کہ اِس سال ملک میں 2 لاکھ ٹن کھاد کی کم پیداوار ہوئی۔ تیسری وجہ عالمی منڈی میں کھاد کی قیمتیں زیادہ ہونے کی وجہ سے پاکستان سے کھاد غیرقانونی طور پر بیرون ملک منتقل (سمگل) بھی ہوئی ہے اور کھاد بحران کی چوتھی وجہ ذخیرہ اندوزی رہی‘ جو پاکستان کے کاروباری و تجارتی طبقات کا محبوب مشغلہ ہے۔ موجودہ صورتحال میں بھی جب کھاد کی کم پیداوار اور طلب کے درمیان عدم توازن سے متعلق خبریں آنا شروع ہوئیں تو صنعتوں اور ڈیلروں نے اِس صورتحال کا فائدہ اُٹھانے کا فیصلہ کیا تو کھاد کی 2 لاکھ پیداواری کمی بڑھ کر 4 لاکھ ٹن ہو گئی اور شاید ہی دنیا کے کسی دوسرے ملک میں ایسا ہوتا ہو! زراعت کو منافع بخش بنانے اور اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے یعنی کاشتکاروں کے مفادات کا تحفظ کرنے کیلئے جہاں زرعی پیداواری ضروریات کی قیمتوں کو اعتدال پر رکھنا ضروری ہے وہیں کاشتکاروں کو فصلوں پر اٹھنے والی اضافی لاگت کے حوالے سے احساس کفالت پروگرام کے تحت سہارا دینے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ غذائی خودکفالت ہی وہ واحد اُمید ہے‘ جو ملک میں مہنگائی کی شرح کو قابل برداشت حدوں تک رکھ سکتی ہے اور اگر (خدانخوستہ) غذائی تحفظ ممکن نہ رہا تو خوردنی اجناس کی قیمتوں سے ہونے والی مہنگائی میں مزید ہوشربا اضافے کو باوجود کوشش (سبسڈی) بھی نہیں روکا جا سکے گا۔