قومی اقتصادی مفاد

وفاقی وزارت سائنس وٹیکنالوجی نے بلدیاتی انتخابات کیلئے الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں فراہم کرنے سے معذرت کرلی ہے الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی فراہمی سے متعلق مراسلے کے جواب میں وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کا کہنا ہے کہ وہ خود مشین تیار نہیں کر سکتی، جو مشینیں بطور ماڈل دکھائی گئی تھی۔ وہ پرائیویٹ کمپنی کی تیار کردہ تھیں اور وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے ابھی تک الیکٹرانک مشین کی خریداری تک نہیں کی۔ووٹنگ مشینوں کو پیپرا قوانین کے تحت خریدنا الیکشن کمیشن کا ہی استحقاق ہے، الیکشن کمیشن مروجہ قوانین کے تحت آنے والے انتخابات کیلئے مشینوں کی خریداری کا عمل شروع کرسکتا ہے حکومت اسے وسائل فراہم کرے گی۔ تاہم وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے الیکشن کمیشن کو ای وی ایم کے پراجیکٹ کیلئے پی سی ایس آئی آر میں جگہ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرادی۔قبل ازیں الیکشن کمیشن نے وزارت اینڈ ٹیکنالوجی کی طرف سے پرائیویٹ کمپنیوں سے ای وی ایم مشینوں کی خریداری پر تحفظات کا اظہار کیا تھا، الیکشن کمیشن نے اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کیلئے وفاقی حکومت سے 3900 مشینیں طلب کی ہیں۔وزیراعظم عمران خان اور وفاقی وزراء بھی گذشتہ ایک سال سے انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال پر زور دیتے رہے ہیں۔ حکومت کا موقف ہے کہ دنیا بھر میں انسانی مداخلت سے پاک جدید مشینوں کا استعمال ہورہا ہے تاکہ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کا تدارک ہوسکے۔ پاکستان میں 1962کے بعد سے جتنے انتخابات ہوئے ہیں ان میں شکست کھانے والی جماعتیں دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے انتخابی نتائج کو مسترد کرتی رہی ہیں۔جب پیپلز پارٹی برسراقتدار آتی ہے تو مسلم لیگ اور دیگر اپوزیشن جماعتیں دھاندلی کا الزام لگاتی ہیں جب مسلم لیگ کو انتخابات میں اکثریت ملتی ہے تو پیپلز پارٹی اور دیگر ہارنے والی جماعتیں انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگاتی رہی ہیں۔اب جبکہ تحریک انصاف اقتدار میں ہے تو پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، اے این پی اور جے یو آئی سمیت اپوزیشن جماعتیں انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگاکر حکومت کو سلیکٹیڈ ہونے کا طعنہ دے رہی ہیں۔حکومت نے شفاف انتخابات کرانے کیلئے جب انتخابی اصلاحات کی بات کی تو اس کی بھی مخالفت کی جارہی ہے۔ اب اپوزیشن کی طرف سے یہ الزام لگایاجارہا ہے کہ انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر کرانے کا تقاضا کرنے والی حکومت مشینیں فراہم کرنے سے انکار کررہی ہے گویا حکومت کو شفاف انتخابات کرانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین بھی سٹیشنری، بیلٹ پیپز، بیلٹ باکسز، مہروں اور انمٹ سیاہی کی طرح انتخابی سامان میں شمار ہوتاہے حکومت کا کام وسائل فراہم کرنا ہے۔ الیکشن کمیشن نے حکومت سے آئندہ انتخابات کے سامان کی خریداری، عملہ کی تربیت اور دیگر اخراجات کی مد میں بجٹ کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔ اگر حکومت مطلوبہ وسائل فراہم کرنے میں پس و پیش کرتی ہے تو یہ حکومت کا قصور ہوگا۔ عوام رائے دہی کے ذریعے چند افراد کو نمائندہ بناکر قومی ایوانوں میں بھیجتے ہیں قومی ضروریات کیلئے قانون سازی اور ان قوانین پر عمل درآمد کرانا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ عوام کے مسائل حل کرنے اور ان کی ضروریات پوری کرنے کیلئے مختلف وزارتیں،ڈویژنز، محکمے، ادارے اور تنظیمات قائم کی جاتی ہیں جن کا دائرہ کار اور دائرہ اختیار ملک کے آئین اور قانون میں درج ہوتا ہے۔ جہاں تک انتخابات کو شفاف بنانے کا معاملہ ہے تو یہ اس حوالے سے اہم ہے کہ کسی بھی حکومت کا موثر انداز میں کردار ادا کرنا تب ہی ممکن ہے جب اسے سیاسی بحران کا سامنا نہ ہو اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں اکثر بحران انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنے کی صورت میں سامنے آتے ہیں اس لئے انتخابی عمل کو زیادہ سے زیادہ قابل اعتماد بنانا ازحد ضروری ہے۔