پشاور کی تاریخ ’فصیل شہر‘ کے ذکر اور اِس بارے میں فکر بنا مکمل نہیں ہو سکتی لیکن بدقسمتی سے اِس کے کچھ حصے ہی چند دن کے مہمان دکھائی دیتے ہیں کیونکہ اِنہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جبکہ محکمہئ آثار قدیمہ کے فیصلہ ساز توجہ دلانے پر کہتے ہیں کہ …… ”اِن کے پاس اِس قدر افرادی اور تکنیکی وسائل نہیں کہ وہ جنوب مشرق ایشیا کے اِس زندہ و تاریخی شہر کے ماضی کی ہر یادگار کا تحفظ کر سکیں۔“ ازحد ضروری ہے کہ صوبائی حکومت ’والڈ سٹی اتھارٹی‘ اور ’سیف سٹی‘ نامی منصوبوں کو جلد از جلد عملی جامہ پہنائے جس سے نہ صرف پشاور کے مسائل اور یہاں فراہم کی جانے والی بنیادی سہولیات بلکہ امن و امان کی صورتحال بھی بہتر ہوگی اور بالخصوص گلی کوچوں میں رونما ہونے والے جرائم میں بھی کمی واقع ہو گی اور ساتھ ہی فصیل شہر پر نظر رکھنا بھی آسان ہو جائے گا‘ جس پر پشاور کی تاریخ سے نابلد یا دلچسپی نہ رکھنے والوں نے نظریں گاڑھ رکھی ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ ’فصیل شہر‘ کے صرف چند حصے (ٹکڑے) ہی باقی ہیں جو سر آسیا گیٹ‘ سرد چاہ (ٹھنڈی کھوئی) گیٹ‘ کوہاٹی گیٹ‘ گنج گیٹ اور لاہوری گیٹ سے متصل ہیں۔ بنیادی طور پر فصیل شہر کے ساتھ مرکزی شاہراہ (سٹی سرکلر روڈ) پر تجاوزات اور فصیل شہر کے اندرونی رہائشی علاقے سے اِس پر وار کئے جاتے ہیں اور ایسے مکانات اونے پونے داموں خریدے جاتے ہیں جو فصیل شہر سے متصل ہوں اور پھر راتوں رات فصیل شہر منہدم کر کے سرکلر روڈ کے کنارے ایک اور تجارتی مرکز کا اضافہ کر دیا جاتا ہے چونکہ قانون کے مطابق فصیل شہر کو منہدم کرنا جرم ہے لیکن ایک بار یہ جرم سرزد ہو جائے تو اِس کی سزا ایسی نہیں کہ کوئی بھی شخص یہ جرم کرنے کی ہمت نہ کرے۔ پشاور کے ’آثار قدیمہ‘ کو تحفظ دینے کیلئے زیادہ سخت قانونی چارہ جوئی اور مثالی سزاؤں کی ضرورت ہے بصورت دیگر ایک ایک کر کے وہ سبھی تعمیراتی خوبیاں اور نشانیاں ختم ہو جائیں گی‘ جس کی کڑیاں یہاں کی تاریخ و ثقافت کے علاوہ مذہبی سیاحت کے امکانات سے بھی جڑی ہوئی ہیں۔فصیل شہر کیا ہے اور اِس کا تحفظ کیوں ضروری ہے؟ تاریخ کے مطابق سال 1818ء میں جب سکھوں نے پشاور میں قبضہ کیا اور اُن کی حکومت 1849ء تک جاری رہی تو اِس دوران پہلے سے موجود (مٹی اور گاڑھے سے بنی بے ترتیب) فصیل شہر کو نئی شکل و صورت اور ترتیب سے تعمیر کیا گیا۔ سکھ دور کے دوران پشاور میں تعمیرات کا ایک سلسلہ رہا بالخصوص گورنر جنرل ایوٹیبل (Gen. Avitabile) کے زیرنگرانی (1839ء سے 1842ء کے دوران) فصیل شہر اور نکاسیئ آب کا نظام وضع کرنے پر خصوصی توجہ دی گئی لیکن سکھ دور کے دوران بھی فصیل شہر کو مٹی ہی سے تعمیر کیا گیا جس کے حصار میں اضافے اور اِس کی تعمیر میں پختہ اینٹ کا استعمال برطانوی راج کے دوران ہوا۔ فصیل شہر میں سولہ دروازے (کابلی‘ اندرشہر‘ کچہری‘ ریتی‘ رام پورہ‘ ہشت نگری‘ لاہوری‘ گنج‘ یکہ توت‘ کوہاٹی‘ سرکی‘ سرد چاہ‘ آسیا (طبیبان)‘ رام داس‘ ڈبگری اور باجوڑی گیٹ) تھے جن میں صرف 2 (سر آسیا اور سرد چاہ) ہی اصل حالت میں باقی ہیں جبکہ دیگر دروازوں کو قدیمی فن تعمیر کے برعکس اور اپنی نوعیت کے منفرد ڈیزائن کے ساتھ تعمیر کر دیا گیا ہے لیکن یہ کسی بھی طرح پشاور کے قدیمی دروازوں جیسے نہیں۔ ماضی کی صوبائی حکومت نے دروازے تعمیر کئے لیکن فصیل شہر پر توجہ نہیں دی۔ مختلف ادوار میں ’سٹی سرکلر روڈ‘ کو کشادہ کرنے اور سٹی سرکلر روڈ کے ساتھ نکاسیئ آب کے لئے نالے کی تعمیر کے مقصد سے بیرون لاہوری گیٹ سے متصل رہائشی مکانات مسمار کئے گئے اور وہاں دہائیوں سے آباد مسیحی برادری کو شہر کے مضافات میں متبادل جگہ فراہم کی گئی جہاں تاحال بنیادی سہولیات تک میسر نہیں اور دوسری طرف لاہوری گیٹ سے متصل فصیل شہر کو منہدم کر کے کثیر المنزلہ تجارتی مراکز بنا دیئے گئے اس طرح پشاور کی فصیل شہر کا نام و نشان مٹا کر ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔ فصیل شہر میں دو مقامات پر ’ٹیڈی دروازے‘ قائم ہیں۔ ایک کیلئے ’کوہاٹی ٹیڈی‘ اور دوسرے کے لئے ’یکہ توت ٹیڈی‘ (دروازے) کا نام استعمال کیا جاتا ہے جو بنیادی طور پر گزرگاہیں اور فصیل شہر میں ڈالے گئے ایسے شگاف ہیں‘ جنہیں وقت کے ساتھ گزرگاہیں بنا دیا گیا۔ کوہاٹی ٹیڈی گیٹ سے متصل فصیل شہر کا ایک بڑا ٹکڑا اصل حالت میں موجود ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اِس مقام پر فصیل شہر کی پشت پر رہائشی مکانات نہیں بلکہ ایک بند گلی گزرتی ہے اور یہ مقام ’ٹاؤن ون‘ کے دفاتر کے بلمقابل ہونے کی وجہ سے بھی قبضے سے محفوظ رہا ہے۔ صوبائی حکومت فصیل شہر کے اگر اِس ایک ٹکڑے ہی کو اصل حالت میں بحال رکھے اور اِس سے متصل ٹیڈی گیٹ کو ماضی کے فن تعمیر کی طرز پر بنائے تو یہ پشاور پر احسان ِعظیم ہوگا کیونکہ اندیشہ یہ ہے کہ یکہ توت ٹیڈی گیٹ سے متصل فصیل شہر کے ساتھ‘ فٹ پاتھ کا استعمال کرتے ہوئے کاروبار پھیلائے جا رہے ہیں اور قبضہ مافیا کا طریقہئ واردات ہی یہ ہوتا ہے کہ پہلے عارضی اور بعدازاں مستقل قبضہ کر لیا جاتا ہے۔ یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ فصیل شہر پر پانی کے مسلسل چھڑکاؤ اور اِس میں سوراخیں کر کے خستہ حال دیوار کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے تاکہ یہ ٹکڑا بھی منہدم ہو جائے اور یہاں بھی آس پاس کی طرح قطار میں دکانیں تعمیر کر دی جائیں۔ فصیل شہر پر لگائی جانے والی یہ تازہ نقب ٹاؤن ون دفاتر کے بالکل سامنے اور لب سڑک دن دیہاڑے ہونے والی واردات ہے جس پر متعلقہ حکومتی ادارے اور حکام خاطرخواہ توجہ نہیں دے رہے اور یہی ’تجاہل عارفانہ‘ 90 فیصد سے زائد فصیل شہر کے آثار ختم ہونے کا باعث بنا ہے۔ اُمید ہے باقی ماندہ 10 فیصد یا اِس سے بھی کم فصیل شہر کو بچا لیا جائے گا۔