کوئلے کے وسیع ذخائر کی دریافت

چین پاکستان اقتصادی راہداری میں شامل توانائی کے منصوبے تھرکول فیلڈ بلاک ون میں تین ارب ٹن کوئلے کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔کوئلے کے یہ ذخائرتھرکول میں 145میٹر کھدائی کے بعد برآمد ہوئے ہیں ابتدائی تخمینے کے مطابق یہاں سے کوئلے کی سالانہ پیدوار 9 ارب ٹن ہوگی۔ 3 ارب ٹن کوئلہ کے ذخائر 5 ارب بیرل خام تیل کے برابر ہیں۔معدنی کوئلہ بجلی پیدا کرنے کا بڑا اہم اور سستا ذریعہ ہے۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں پانی کے ذخائر کم ہونے یا بجلی پیدا کرنے والے یونٹوں کی بندش کے بہانے فرنس آئل، ایل این جی اور ڈیزل سے مہنگی بجلی تیار کرتی ہیں اور فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر ہر مہینے صارفین پر اربوں روپے کا اضافی بوجھ ڈالا جاتا ہے۔ گذشتہ روز بھی سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی  نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کیلئے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی کو درخواست دی ہے جس میں دسمبر کے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کی قیمت تین روپے بارہ پیسے فی یونٹ بڑھانے کا مطالبہ کیاگیا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ فرنس آئل اور ایل این جی سے مطلوبہ مقدار میں بجلی پیدا کرنے پر پانچ چھ ارب کے اضافی اخراجات آئے ہیں بجلی کی فی یونٹ قیمت میں سوا تین روپے اضافے سے 26 ارب 40کروڑسے زائد صارفین سے وصول کئے جائیں گے۔ سی پی پی اے کا موقف ہے کہ دسمبر2021 میں 8 ارب 52 کروڑیونٹ بجلی پیدا ہوئی، جس کی پیداوار لاگت 73 ارب 84 کروڑروپے رہی۔جس کی وجہ سے ان پر اضافی بوجھ پڑا۔تھرکول میں کوئلے کے وسیع ذخائر کی دریافت کے بعد توانائی کے شعبے سے وابستہ حکام کو چاہئے کہ کوئلے سے زیادہ سے زیادہ سستی بجلی پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کریں  تاکہ فرنس آئل اور ایل این جی پرانحصار ختم کیاجاسکے۔اور عوام کو سستی بجلی میسر آسکے۔مگر یہاں مقامی خام مال کو استعمال میں لاکر خود انحصاری کی روایت کبھی پروان نہیں چڑھ سکی۔ماضی میں آئی پی پیز کو مہنگی بجلی پیدا کرنے کا ٹھیکہ دیا گیا ہے۔ بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ طے پانے والے معاہدے حکومت ختم نہیں کرسکتی۔ ماضی کے حکمران ان معاہدوں میں اربوں روپے کمیشن لے کر ڈکار گئے اور قوم آج تک ان کے گناہوں کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔پاکستان کو قدرت نے آبی ذخائر سے نہایت فیاضی سے نواز ہے۔ دریائے چترال، دریائے پنجکوڑہ، دریائے سوات، دریائے سندھ، دریائے کنہار، دریائے سرن، دریائے کرم، دریائے باڑہ اور درجنوں دیگر آبی ذخائر سے پچاس ہزار میگاواٹ سے زیادہ سستی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے جبکہ پاکستان کی موجودہ ضرورت صرف 26ہزار میگاواٹ ہے۔ستم ظریفی یہ ہے اگر ہم پچیس تیس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کربھی لیں تو ہماری بوسیدہ ٹرانسمیشن لائنیں صرف 18ہزار میگاواٹ کا بوجھ ہی اٹھا سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بجلی کی مطلوبہ پیداوار حاصل ہونے اور نیشنل گرڈ میں ہزاروں میگاواٹ بجلی موجود ہوتے ہوئے بھی ملک میں سال بھر دس سے بارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے۔سیاسی جماعتوں کے بلندوبانگ دعوؤں کے باوجود عوام گذشتہ کئی سالوں سے لوڈ شیڈنگ کا عذاب جھیل رہے ہیں۔اگربجلی کی تقسیم کار کمپنیاں اپنی شہ خرچیاں تھوڑی کم کریں تو ایک سال کے اندر ملک میں بوسیدہ تاریں تبدیل اور نئی ٹرانسمیشن لائن بچھاکر قوم کو لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے بچایاجاسکتا ہے۔