صوبائی مالی و انتظامی خودمختاری کیلئے جدوجہد کامیاب ہونے کے بعد اگلا مرحلہ بلدیاتی اداروں کو مضبوط بنانے کا تھا لیکن پارلیمانی سیاسی جماعتوں نے آدھا کام تو خوش اسلوبی سے سرانجام دیدیا لیکن باقی آدھے کام سے متعلق اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہیں۔ جمہوریت کی مضبوطی کے لئے بلدیاتی اداروں کے کردار کو بڑھانے کی ضرورت ہے اور اِس تصور کے پیچھے استدلال (دلیل) یہ ہے کہ اگر کوئی نمائندہ ووٹروں کے جتنا قریب ہوگا‘ وہ اتنی ہی بہتر طریقے سے ان کی خدمات و ضروریات پورا کر سکے گا چونکہ اقتدار کی منتقلی کے لئے قدرتی طور پر مقامی نمائندوں کو فنڈز منتقل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے‘ اس لئے صوبائی حکومتیں عام طور پر اس کی مخالفت کرتی ہیں۔ چاہے ان کی اپنی ہی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے رہنما مقامی سطح پر اقتدار میں ہوں۔ سندھ کی صورتحال مزید پیچیدہ ہے کیونکہ پیپلز پارٹی صوبائی سطح پر مالی امور کی نگران ہے جبکہ متحدہ قومی موومنٹ تاریخی طور پر کراچی میں مقامی حکومتوں کی نشستوں کا بڑا حصہ لے چکی ہے۔ چند روز پہلے تک‘ کراچی میں ایم کیو ایم پاکستان کے کارکنوں اور حامیوں نے متنازعہ لوکل گورنمنٹ قانون کے خلاف احتجاج کیا جبکہ احتجاج کرنے والوں پر پولیس تشدد دیکھنے میں آیا۔ جمہوریت کی روح آزادیئ اظہار ہے لیکن طاقت کے استعمال سے اختلاف کا حق نہیں دیا جا رہا۔ ذہن نشین رہے کہ سندھ کی سیاسی جماعتیں ترمیمی بلدیاتی قانون میں مالی و انتظامی اختیارات کم ہونے پر سراپا احتجاج ہیں۔سندھ کے بلدیاتی قانون میں ترمیم کے تناظر میں چیف جسٹس گلزار نے بطور چیف جسٹس آف پاکستان کی رخصتی سے قبل جو فیصلہ سنایا‘ وہ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں صرف سندھ ہی نہیں بلکہ دیگر صوبائی حکومتوں کو بھی اپنا چہرہ دیکھنا چاہئے۔ یقینا اِس فیصلے کے دیرپا اثرات مرتب ہوں گے اور ہونے بھی چاہئیں۔ عدالت ِعظمیٰ نے یکم فروری کو فیصلہ سنایا تھا کہ سندھ کے لوکل گورنمنٹ قانون کی مخصوص کاروائیاں بنیادی طور پر آئین کے آرٹیکل ’چودہ اے‘ کی خلاف ورزی ہیں اور انہیں ختم کیا جانا چاہئے۔ یہ فیصلہ ’ایم کیو ایم پاکستان‘ کی درخواست کے جواب میں سامنے آیا‘ جس میں کہا گیا تھا کہ اس قانون کا مقصد مقامی حکومتوں سے اختیارات چھین کر صوبائی حکومت کے حوالے کرنا ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے عدالت میں دوہزارتیرہ کی تبدیلیوں کے خلاف مقدمہ بھی دائر کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے‘ جس نے ’ایم کیو ایم پاکستان‘ کے مؤقف کو درست ثابت کیا ہے اپنی جگہ اُس اختلافی نکتہئ نظر کی فتح ہے جسے صوبائی حکومت خاطرخواہ اہم نہیں سمجھتی۔ اِس بارے میں سندھ حکومت نے تجویز دی ہے کہ تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد اپنا ردعمل دے گی اور عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کر سکتی ہے۔ عدالت ِعظمیٰ کے مختصر فیصلے میں کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومت مقامی حکومتوں کو مختص انتظامی اور مالی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی اور قانون کے تحت اُسے ایسا کرنے کی کوشش سے باز رہنا چاہئے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومت کی جانب سے کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور کراچی واٹر سپلائی بورڈ پر قبضہ غیر قانونی تھا اور اسے واپس لیا جانا چاہئے۔ عدالت نے یہ بھی فیصلہ دیا ہے کہ کراچی کا ماسٹر پلان صوبائی حکومت کی مداخلت کے بغیر شہر کے میئر (بلدیاتی نمائندے) کے ماتحت ہونا چاہئے اور یہ کہ وہی قوانین سندھ کے دیگر شہروں میں مقامی حکومتوں پر لاگو ہوں جیسا کہ آئین کا تقاضا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مقامی حکومتیں عوام کے حقوق اور آزادی برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہیں۔ سب سے پہلے‘ یونین کونسل کی سطح پر عام آدمی کیلئے براہ راست کونسلر تک رسائی ہوتی ہے اور یہی عوام اور نمائندوں کا تعلق بلدیاتی نظام کی ہر سطح پر ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی عام شہری کیلئے صوبائی حکومت سے اپنے مسائل و مشکلات کیلئے رجوع کرنا عملاً ناممکن ہوتا ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ تمام صوبائی حکومتیں اور خاص طور پر حکومت سندھ‘ بلدیاتی قوانین کو اِس کی حقیقی روح کے ساتھ برقرار رکھیں اور بلدیاتی نمائندوں کو بھی دل سے قبول کیا جائے۔ ہمارے سیاسی فیصلہ ساز اِس بات پر فخر کرتے ہیں کہ وہ عوام کے نمائندے ہیں لیکن وہ کسی دوسرے نمائندے کو اپنا جیسا نہیں سمجھتے اور نہ ہی اپنا جیسا استحقاق اور حقوق دینے کیلئے باآسانی تیار ہوتے ہیں۔ اصولاً اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہئے کہ آئین کے مطابق بلدیاتی نمائندوں کے حقوق کی ادائیگی ہو اور ایسی تمام شقوں کو ختم کرتے ہوئے آئین پر مکمل عمل درآمد کیا جائے جن کے ذریعے بلدیاتی نمائندوں کیلئے مالی و انتظامی امور میں کسی بھی طرح سے رکاوٹ پیدا ہوتی ہو۔ کسی شہر (تحصیل) کے میئر اور مقامی حکومت کے دیگر نمائندوں کو عمومی معاملات چلانے کیلئے بااختیار بنایا جانا چاہئے تاکہ وہ ترقیاتی ترجیحات و حکمت عملیوں کے تعین سے لیکر عوام کے درمیان بہتر فیصلہ کرنے کی اپنی صلاحیت کا استعمال کریں اور انہیں بھی اپنا مؤثر کردار ادا کرنے کا موقع مل سکے۔ بلدیاتی نمائندوں سے اختیارات چھین کر انہیں یا تو صوبائی حکومت کے تابع فرمان بنانا سے مقامی حکومتوں کو ناکام بنانے جیسی پس پردہ بدنیتی درحقیقت آئین کی صریح خلاف ورزی ہے جو بہتر طرزحکمرانی کے قیام کیلئے بھی ضروری و اہم ہے۔