پے در پے فیصلے بادلوں کی صورت چھائے ہوئے ہیں جن سے کہیں ہلکی بوندا باندی تو کہیں موسلادھار بارش کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ اِن ”موسمی حالات“ کے تناظر میں بہار آنے کی اُمید ہے کہ جس اُمید پر اہل پشاور کی دنیا آباد و قائم ہے۔ اگر ”اُمید پر دنیا قائم ہے“ کے محاوراتی تناظر میں پشاور بالخصوص اِس کے اندرون شہر کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے کہ جہاں رہائشی (ریزڈینشل) و کاروباری (کمرشل) علاقوں (حلقوں) کی تمیز ختم ہو چکی ہے۔وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کی خصوصی ہدایت پر پشاور سے متعلق ضلعی (ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن) اور بلدیاتی انتظامیہ (ٹاؤنز ایڈمنسٹریشن) نے چند قابل ذکر فیصلے کئے ہیں۔ پہلا فیصلہ: تجاوزات کے خلاف جاری مہم میں ضبط کیا جانے والا سازوسامان نذر آتش کیا جائے گا۔ ماضی میں اِس قسم کا قبضے میں لیا گیا سازوسامان نہ صرف کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمروں کی ہمہ وقت نگرانی کے باوجود خردبرد ہوتا رہا ہے بلکہ اِسے چند روز کسی مقام پر ذخیرہ اور ذرائع ابلاغ میں نمائش کے بعد اُنہی مالکان کو لوٹا دیا جاتا تھا یعنی ماضی میں پشاور کی تجاوزات بطور ”امانت“ ضبط کی جاتی تھیں اور یہ اُنہی کی ملکیت رہتی تھیں‘ جن سے قبضے میں لیا گیا ہوتا اور یوں تجاوزات ختم کرنے کی کوششیں ناکام اور دعوے دھرے کے دھرے رہتے کیونکہ یہ اُسی شان و شوکت سے دوبارہ قائم ہو جاتی تھیں۔ اہل پشاور کے بہت ہی کم لوگوں کو ماضی میں تجاوزات کے خلاف فیصلوں‘ بلندبانگ دعوؤں اور پرعزم کاروائیوں کے درپردہ کھیلے جانے والے بلی چوہے کے اِس کھیل کا علم ہوگا جو دہائیوں سے نہایت ہی رازداری‘ کامیابی اور تعاون و شراکت داری کے ماحول میں کھیلا جا رہا ہے لیکن شاید اب ایسا نہیں ہوگا کیونکہ صوبائی حکومت کی کڑی نگرانی کے باعث ٹاؤنز کے اہلکاروں اور انتظامی امور کے نگرانوں کیلئے ایسا کرناممکن نہیں رہا۔اگر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا متوجہ ہیں اور واقعی چاہتے ہیں کہ کم سے کم پشاور سے بازاروں سے تجاوزات کا خاتمہ عملاً ممکن ہو اور یہ تجاوزات چند دن یا ہفتوں بعد دوبارہ قائم بھی نہ ہوں تو اِنہیں ماضی کے مقابلے اِس مرتبہ مختلف لائحہ عمل تشکیل دیتے ہوئے سب سے پہلے بلدیاتی انتظامیہ (ٹاؤنز ایڈمنسٹریشن) کے اُن سبھی اہلکاروں کی خدمات دیگر شعبوں کے حوالے کرنا ہوں گی جو پشاور سے انسداد تجاوزات کی ذمہ داری رکھتے ہیں اور اِن کی جگہ دیگر اہلکاروں کو یہ ذمہ داری دیتے ہوئے ہر دن کی رپورٹ طلب کرنا ہوگی۔ دوسرا فیصلہ: پشاور میں غیرقانونی تعمیرات اور بغیر پارکنگ پلازوں کے خلاف کاروائی (آپریشن) کی جائے گی۔ تجاوزات کا باعث بننے والے غیرقانونی اڈے (کار پارکنگز) اور چنگ چی سٹینڈز کا بھی نوٹس لے لیا گیا ہے۔ پشاور میں غیرقانونی تعمیرات کو مسمار کرتے ہوئے کثیرالمنزلہ پلازوں کو سربمہر (سیل) کرنے جیسے فیصلے ماضی میں بھی اعلان ہوتے رہے ہیں لیکن اِن کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی عمل میں نہ آنے کی وجوہات سب کو معلوم ہیں۔ ایک وجہ یہ ہے کہ جن تعمیرات کو آج غیرقانونی قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ وہ تعمیراتی نقشوں کے مطابق تعمیر نہیں ہوئیں اور اُنہوں نے کار پارکنگ کیلئے بنائے گئے تہہ خانوں کو بھی ختم کر دیا جبکہ پلازے کے منظورشدہ تعمیراتی نقشے سے زیادہ رقبے پر تعمیرات کی گئیں تو اِس سے متعلق ایک سے زیادہ حکومتی ادارے اور اُن کے خصوصی شعبہ جات موجود ہیں جن کے اہلکاروں کا بھی یکساں احتساب ہونا چاہئے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اِس قدر بڑے پیمانے پر ہونے والی بے قاعدگیوں کا بروقت نوٹس نہیں لیا گیا‘ بنیادی بات یہ ہے کہ تجاوزات کے بارے میں کاروائیاں متعلقہ اداروں کی کارکردگی کے احتساب سے شروع ہونی چاہیئں۔