افغانستان: حرف آخر

ابتدائیہ یہ ہے کہ افغانستان کی داخلی صورتحال ’غیراعلانیہ عالمی اقتصادی پابندیوں‘ اور ’تعاون و تعلقات منقطع‘ ہونے کے سبب ہر دن بگڑ رہی ہے۔ حرف آخر یہ ہے کہ افغانستان کے عوام کو اِن کے ناکردہ گناہوں کی سزا ملنے کا سلسلہ کسی صورت ختم نہیں ہو رہا اور طاقت کے نشے میں دنیا افغانستان کے نہیں بلکہ اپنے انجام سے بے خبر ہے۔ کون نہیں جانتا کہ حالیہ چند دہائیوں میں اقتصادی پابندیاں عائد کرنا امریکی خارجہ پالیسی کے اہم ترین ہتھیاروں میں سے ایک ہتھیار ہے اور جب کسی حکومتی پالیسی کو ہتھیار قرار دیا جاتا ہے تو اِس سے مراد ’تباہی و بربادی‘ ہوتی ہے‘ خوشحالی تعمیر اور استحکام نہیں جیسا کہ عموماً سمجھا جاتا ہے۔ فی الوقت 20 سے زائد ممالک امریکی اقتصادی پابندیوں کا شکار ہیں لیکن یہ بات بہت ہی کم تعداد میں امریکیوں کو معلوم ہوگی کہ اقتصادی پابندیوں کے باعث بے گناہ لوگ بشمول خواتین اور بچوں کی اموات ہوتی ہیں اور کسی ملک پر اقتصادی پابندیاں عائد کر کے اُس کی تعمیروترقی کے عمل کو بھی روک دیا جاتا ہے جو درحقیقت انسانی حقوق کے عالمی منشور کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے! افغانستان کے تناظر میں امریکہ کی حکمت عملیوں کو دیکھا جائے تو کچھ بھی پوشیدہ نہیں۔ سینکڑوں ہزاروں افراد کی اموات اور غربت و افلاس میں اضافے سے امریکہ نے افغان عوام کو کچھ نہیں دیا اور یہ سب کچھ ایسے زہریلے تحائف ہیں جو ’شوگر کوٹیٹڈ‘ یعنی خوش ذائقہ بنا کر دیئے جا رہے ہیں لیکن چونکہ عالمی ذرائع ابلاغ امریکہ کی مٹھی میں ہیں اِس لئے افغانستان اور دیگر ممالک کے خلاف امریکہ کی اقتصادی پابندیوں کے اثرات بارے زیادہ خبرنگاری اور تبصرے نہیں کئے جاتے۔ رواں موسم سرما افغانستان کے لئے کسی ڈروانے خواب سے کم نہیں۔ عالمی اداروں کا اندازہ ہے کہ افغانوں کی بڑی تعداد بھوک و افلاس سے دوچار ہے تاہم اگر فوری عالمی امداد بحال نہ کی گئی تو اندیشہ ہے کہ چند ماہ میں دو کروڑ اٹھائیس لاکھ افغان ’انتہائی شدید غذائی عدم تحفظ‘ سے دوچار ہو جائیں گے جو انسانی بحران (المیہ) ہوگا۔ بھوک و افلاس سے دوچار افغانوں کی تعداد ملک کی 55 فیصد آبادی سے زیادہ ہے اور ایک اندازے یہ بھی ہے کہ رواں برس (سال دوہزاربائیس کے دوران) دس لاکھ افغان بچے ’شدید ترین غذائی قلت‘ کا شکار ہوں گے۔ افغانستان میں ہر عمرکے لوگ‘ بچے‘ جوان‘ بزرگ اور خواتین غذائی کمی کا شکار ہیں جس کے باعث وہاں دیگر بیماریوں کے علاوہ غذا کی کمی سے زیادہ اموات ہو رہی ہیں کیونکہ ہر جاندار کو صحت مند زندگی بسر کرنے کیلئے جس قدر خوراک (کیلوریز اور غذائی اجزأ) کی ضرورت ہوتی ہے وہ افغانوں کی اکثریت کو میسر نہیں۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے خوراک (ورلڈ فوڈ پروگرام) کے مطابق ……”اٹھانوے فیصد افغانوں کو مناسب خوراک نہیں مل رہی!“ افغانستان کو درپیش مشکلات و مسائل کی بڑی وجہ ’امریکہ کی جانب سے عائد پابندیاں ہیں۔‘ ذہن نشین رہے کہ امریکہ کے فیڈرل ریزرو (مالیاتی ادارے) میں رکھے گئے افغانستان کے سات ارب ڈالر سے زائد کے اثاثے ضبط (منجمند) کر لئے گئے ہیں جو سراسر ناانصافی اور امریکہ جیسی عالمی طاقت کی جانب سے کھلم کھلا دہشت گردی ہے‘ اور یہ اقدام انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے۔ اگر افغانستان کو سات ارب ڈالر مل جاتے ہیں تو یہ افغان معیشت کے چالیس فیصد کے مساوی ہے اور ملک کی تقریباً چودہ ماہ کی درآمدات کی ضرورت کے لئے کافی ہے۔ اگر افغان حکومت کے پاس سرمایہ ہو تو وہ حسب ضرورت خوراک‘ ادویات اور بنیادی استعمال کی ضروریات درآمد کر سکتی ہے جو صحت عامہ کی سہولیات کے لئے انتہائی ضروری ہیں۔ دنیا کا مالیاتی نظام کچھ اِس طرح وضع کیا گیا ہے کہ اِس میں بالخصوص ترقی پذیر دنیا کے ممالک کو اپنے ہاں مالیاتی نظام و استحکام بنانے اور معیشت (درآمدات و برآمدات) کو رواں دواں برقرار رکھنے کیلئے ”ڈالر“ جیسی ہارڈ کرنسی کے بین الاقوامی ذخائر رکھنے کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق جب کسی ملک کے بیرون ملک رکھے مالیاتی ذخائر منجمد ہوتے ہیں تو اُس کے پاس ”نقد کی قلت“ اور بینکنگ کا نظام مفلوج ہو جاتا ہے“ جیسا کہ ہمیں افغان بینکوں کی معذوری کی صورت دکھائی دیتا ہے۔ اب اگر کسی ملک کے پاس ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لئے بھی مالی وسائل نہیں ہوں گے تو اُس کے روزمرہ امور‘ ٹیکس وصولی اور قومی پیداوار کس طرح آگے بڑھے گی!؟ افغان معیشت کی کمزوری و ناتوانی کا یہ پہلو بھی ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ گزشتہ چار ماہ کے دوران افغان کرنسی کی قدر میں تیس فیصد کمی واقع ہوئی ہے‘ جس کی وجہ سے وہاں اشیائے خوردونوش اور دیگر اجناس و ضروریہ کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے بالا ہوگئیں ہیں! افغانستان پہلے ہی ایشیا کا غریب ترین ملک تھا اور نئے حالات نے اِسے اقتصادی طور پر مزید ناتواں و ناگفتہ بہ کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے بیروزگاری بڑھی ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ امریکہ اور اِس کے اتحادی یورپی ممالک کی جانب سے افغانستان کے اقتصادی بائیکاٹ اور اقتصادی پابندیوں پر ناقابل یقین حد تک سختی سے عمل درآمد کی وجہ سے اموات ہو رہی ہیں۔ اِس مرتبہ افغان خانہ جنگی کی وجہ سے نہیں بلکہ اِس خانہ جنگی کا بیج بونے والے امریکہ کے دوغلے پن کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ افغانستان کو اُس کے حال پر نہیں چھوڑا جانا چاہئے کیونکہ یہ کروڑوں لوگوں کی زندگی اور موت کا معاملہ ہے اور اِس صورتحال پر قابو پانے کے لئے فوری و غیرمشروط ’بین الاقوامی امداد‘ کا بندوبست ہونا چاہئے۔ عالمی طاقتوں کا یہ طرزعمل (ڈرامہ و چال) بھی قابل ذکر ہے کہ یہ پہلے کسی ملک کی دوستی اور ترقی کا دعوی کرتے ہوئے اُس سے قربت بناتے ہیں اور پھر اِس کی معیشت اور وسائل پر قابو کر لیتے ہیں جس کے بعد اِن کی مرضی کے بغیر اُس ملک کی معاملات نہیں چل سکتے یقینا افغان عوام کو حقیقی دوست اور حقیقی دشمن کی پہچان ہو گئی ہو گی کہ کس طرح مشکل کی اِس گھڑی میں پاکستان اپنے محدود وسائل کے باوجود اپنے بردار اسلامی ملک کی بڑھ چڑھ کر مدد کر رہا ہے۔ افغانستان کی صورتحال سے متعلق ”حرف آخر“ یہ ہے کہ امریکہ کی موجودہ اقتصادی پابندیاں‘ نائن الیون کے بعد افغانستان پر حملے کے بعد سے 20 برس تک افغانستان پر جنگ مسلط کرنے سے زیادہ مہلک و جان لیوا ثابت ہوں گی۔