پشاور کہانی: انوکھے جرم 

پشاور پولیس کے تفتیشی اہلکاروں کیلئے یوں تو ماضی میں کئی کیسز معمہ بنے ہوئے تھے جن کی تہہ تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کی گئی  لیکن حال ہی میں ایسا ہی ایک معاملہ (معمہ) ایک ایسی خاتون کا سامنے آیا ہے جو مبینہ طور پر بیٹے کی خواہش میں ایک عملیات کرنے والے عملیات کے کسی ”مبینہ ماہر“ پاس گئی اور اس معالج نے اُس خاتون کی کھوپڑی میں کیل ٹھونک دی! یہ خبر اور متاثرہ خاتون کی روداد جب سوشل میڈیا کے ذریعے مشتہر ہوئی تو پشاور پولیس کے سربراہ  نے واقعے کا نوٹس کیا اور ”جعلی عامل“ تلاش کرنے کی ذمہ داری ایس پی سٹی کو سپرد کردی۔ قطع نظر اس کے کہ پولیس اس کیس کی تہہ تک پہنچ گئی اور ہسپتال کے دیواروں میں لگے کیمروں کی مدد سے ایک اجنبی خاتون جو لکھے گئے پتے پر بھی موجود نہ تھی کا سراغ لگایا اور اس کے شوہر سے بھی معلومات  حاصل کرلیں، خاتون کے شوہر کا کہنا ہے کہ اس کی بیوی کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں اور بھی اس نے ڈھیر ساری معلومات پولیس کو فراہم کیں۔ ان سب حقائق کے باوجود یہ بے اعتقادی اور جہالت کی انتہا نہیں تو کیا ہے کہ ایک خاتون ’نرینہ اولاد‘ پانے کی خواہش میں کس قدر تکلیف دہ اور جان لیوا مرحلے (تجربے) سے گزر کر ’لیڈی ریڈنگ ہسپتال‘ میں پہنچی‘ جہاں سے پولیس نے اپنی تفتیش کا آغاز کیا ہے تاکہ اُس جعلی اور گمنام عامل تک پہنچ سکے‘ جو مبینہ طور پر روپوش  ہے۔ بالفرض محال اگر پولیس اُس تک پہنچ بھی جائے تو ماضی کی ایسی کوئی مثال موجود نہیں جس میں ایسے کرداروں کو قرار واقعی اور عبرتناک سزائیں ملی ہوں۔ پشاور پولیس جہاں ایک عامل اور ایک واردات کی گھتی سلجھانے نکلی ہے تو وہیں اِس قسم کے جرائم کی پائیدار (کماحقہ) روک تھام کیلئے  معاشرتی آگاہی اورذرائع ابلاغ سے بھی مدد لیں۔پشاور پولیس  کیلئے ایک مشکل یہ بھی ہے کہ بہت سارے جرائم پولیس سے پولیس کو براہ راست مطلع (رپورٹ) نہیں کیا جاتا بالخصوص جب ہم سٹریٹ کرائمز کی بات کرتے ہیں تو سرشام سے رات گئے تک پشاور کے گلی کوچوں میں لٹنے والوں کی اکثریت اپنے موبائل فون‘ قیمتی اشیا اور نقدی سے محروم ہوتی ہے لیکن اِس بارے میں متعلقہ تھانے سے رجوع نہیں کیا جاتا۔  لمحہئ فکریہ ہے کہ جعلی عامل سے نرینہ اولاد کی خواہش میں رجوع کرنے والی خاتون کو جب زخمی حالت میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال لایا گیا اور وہاں معالجین نے اُس کی جان بچائی تو اِس بارے میں پولیس کو مطلع نہیں کیا گیا‘ جس کی وجوہات کیا تھیں اور ایک سرکاری ہسپتال (لیڈی ریڈنگ) کے عملے نے دوسرے سرکاری ادارے کو مطلع کرنا ضروری کیوں نہیں سمجھا‘ جرم کا یہ پہلو بھی قابل تشویش و غورطلب ہے۔ بہرحال ’ایس پی سٹی‘ کی سربراہی میں کام کرنے والی تفتیشی ٹیم نے ’لیڈی ریڈنگ ہسپتال‘ میں نصب کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمروں کی مدد سے متاثرہ خاتون کے خاندان تک پہنچنے میں جو کامیابی حاصل کی ہے وہ اہم ہے۔ اِس سلسلے میں ہسپتال کی چار دیواری میں نصب مختلف کیمروں کی مدد سے کسی نتیجے پر پہنچا گیا۔۔تفتیش کے دوران ایک نکتہئ نظر یہ بھی سامنے آیا ہے کہ تین بچیوں کی والدہ اور تین ماہ کی حاملہ خاتون کے سر میں کیل عامل کے کہنے پر اُس نے خود ہی ٹھونکا تھا اور جس علاقے میں وہ خاتون رہائش پذیر ہے‘ وہاں ایک اور خاتون کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ پیش آ چکا ہے، اور اب ایک بار پھر یہ عمل دہرایا گیا جس کی وجہ سے ایک اور خاتون ایک ایسے عمل کا شکار ہوئی‘ جس سے اُس کی جان بھی جا سکتی تھی۔ پشاور کا مسئلہ گلی گلی اور بازار بازار پھیلے جعلی عاملین اور جعلی معالجین ہیں جن کے خلاف خاطرخواہ کاروائی (کلین اَپ مہم) نہیں چلائی جا رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آبادی میں اضافے کے ساتھ اور شہر کا دائرہ پھیلنے کے سبب پولیس پر بوجھ پڑا ہے اور اس کا مقابلہ زیادہ تنددہی اور مستعدی کے ساتھ کیا جا رہا ہے لیکن اس سلسلے میں عوام پر بھی بھاری بھرکم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ معاشرتی برائیوں کے خاتمے میں پولیس کا ہاتھ بٹائیں اور انفرادی طور پر اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔ کیونکہ پولیس تک جب کیس پہنچے تو وہ اپنے طور کوشش کرے گی اور معاملے کی تہہ تک پہنچے گی تاہم زیادہ تر کیسز میں لوگ ایسے معاملات کو چھپا کر رکھتے ہیں اب اس صورت میں کیسے ممکن ہے کہ معاشرتی برائیوں کا خاتمہ ہو جب اس کا مقابلہ کرنے کی بجائے اس پر آنکھیں بند کی جائیں اگر عوامی سطح پر آگاہی کے ذریعے ایسے مسائل اور جرائم کی بیخ کنی کی جائے اور جہاں بھی اردگرد مشکوک قسم کے کردار نظر آئیں تو ان کو فوری طور پر پولیس کے نوٹس میں لایا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ کامیابی کے ساتھ ایسے جرائم کا خاتمہ جن کا تعلق کم علمی اور جہالت سے ہے۔ حرف آخر: حال ہی میں پیشہ رو گداگروں کے خلاف پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے جو مہم پورے زوروشور سے شروع کی تھی اور جس کے نتائج گداگروں کی تعداد میں واضح کمی کی صورت ظاہر بھی ہو رہے تھے لیکن اِس مہم میں خاطرخواہ جوش و جذبہ باقی نہیں رہا اور گداگروں کی ایک تعداد پھر سے معروف تجارتی مراکز اور بازاروں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اِن میں ایک تعداد ایسے گداگروں کی بھی ہے جنہوں نے اپنا ’طریقہئ واردات‘ بدل لیا ہے اور اِن سے نمٹنے کیلئے پشاور پولیس کو بھی اپنا طرزپولیسنگ بدلنا ہوگا۔ گداگروں کی صورت میں قانون شکن عناصر بھی شہر میں پھیل سکتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ جابجا موجود گداگروں کے گروہوں کو قابو میں لایا جائے اور انسدادی گراگری کے عمل کو تیز تر کیا جائے۔