اس سادگی پہ کون نہ مرجائے

افغانستان کے وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی کی شدید برفباری میں سکیورٹی اور پروٹوکول کے بغیر پیدل دفتر آنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پروائرل ہوئی ہے۔ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ برفباری میں وزیر خارجہ اکیلے ہی پیدل دفتر آرہے ہیں اور ان کے ساتھ کوئی بھی سکیورٹی اہلکار موجود نہیں۔تاہم وڈیو میں یہ واضح نہیں کہ یہ ویڈیو کب کی ہے۔سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے وزیر خارجہ کی سادہ طرز زندگی کی تعریف کی گئی ہے۔امیر خان متقی گذشتہ سال اگست میں طالبان کے کابل پر قبضے اور عبوری حکومت کے قیام کے بعد وزیرخارجہ بنے تھے اس سے پہلے امیرمتقی ہماری طرح عام آدمی تھے اور پیدل مٹرگشت کرنا عام آدمی کا سب سے پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے ممکن ہے کہ یہ وڈیو کسی نے چار چھ سال پہلے بنائی ہو۔ لیکن اسے ریلیز کرنے کا وقت اہم ہے۔امیر متقی کی پیدل مارچ کی وڈیو وائرل کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افغانستان کی معاشی حالت اتنی دگرگوں ہوچکی ہے کہ پٹرول مہنگا ہونے کی وجہ سے وہ گاڑی میں گھر سے دفتر جانے کی عیاشی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اسی وڈیو کی بنیاد پر افغانوں نے عالمی برادری کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہوگی کہ افغانستان کے منجمد اثاثے واپس کرنے اور انسانی بنیادوں پر ہنگامی امداد فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔بعض لوگوں نے اس بات کو بھی بعید از قیاس قرار نہیں دیا ہے کہ وزیرخارجہ کو ہائی بلڈ پریشر، کولسٹرول یا جوڑوں میں درد کی شکایت ہو۔اور ڈاکٹروں نے انہیں پیدل چلنے کا مشورہ دیا ہو۔بہرحال وجہ خواہ جو بھی ہو۔ افغان وزیرخارجہ کی یہ سادگی ہمیں بھی بہت پسند آئی۔یہاں یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ طالبان حکومت بتدریج عالمی برداری کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کیلئے زمین ہموار کرنے لگی ہے اور اس کے تعلیم کے حوالے سے اقدامات نے عالمی توجہ بھی حاصل کی ہے۔ تاہم ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ تعلیم کے سلسلے کی مکمل بحالی وہ بھی چاہتے ہیں تاہم اس میں مالی رکاوٹیں ہیں۔جن کو دور کرنا عالمی برداری کی بھی ذمہ داری ہے۔دیکھا جائے تو افغانستان کے ساتھ عالمی طاقتوں کا رویہ کچھ عجیب سا ہے وہ یہاں پر بہت شوق سے آجاتی ہیں مگر جب یہاں سے چلے جاتی ہیں تو پھر افغانستان کو ایسے نظر انداز کردیتی ہیں جیسے کبھی یہاں آئی  ہی نہ ہوں۔امریکہ نے یہاں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، ملک کو تباہ حال بنا دیا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔اب افغانستان کی کیا حالات ہے وہ دنیا دیکھ رہی ہے کہ نہ تو وہاں پر علاج کی سہولیات ہیں اور نہ ہی تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری رکھا جاسکتا ہے۔مواصلات کے ذرائع بھی بد حالی کا شکار ہیں۔یہ وہی  افغانستان ہے جہاں پر قیمتی معدنیات کی کمی نہیں پر ان سے استفادہ کرنے کی مالی استعداد بھی نہیں، جہاں پر تیل اور گیس کے ذخائر بھی ہیں مگر انہیں نکال کر ان سے انہیں استعمال میں لانے کیلئے وسائل موجود نہیں ہیں۔ اب اگر چین اور پاکستان وہاں تک سی پیک کو توسیع دے کر وہاں پر معاشی خوشحالی کے منصوبوں کو لانے میں دلچسپی  لیتے ہیں تو ایسے میں بھی کچھ قوتیں ہیں جو افغانستان کی خوشحالی کی بجائے اس کی بدحالی سے اپنے مفادات کی تکمیل چاہتی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ افغانستان کے زخموں کی مرہم پٹی کی جائے اور ان کے مسائل کو ختم کیا جائے۔