کوہاٹ: تاریخی و معدنی ذخائر

نعمت کی ناقدری ہی دراصل ناشکری ہے اور اِس قابل مذمت طرزعمل کی کئی ایک مثالیں خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں پھیلی دکھائی دیتی ہیں جیسا کہ رواں ہفتے ضلع کوہاٹ میں آباد تین بڑے قبائل پیرخیل‘ منصور خیل اُور جنگل خیل کے عمائدین پر مشتمل جرگہ (اجلاس) میں ضلعی انتظامیہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ”جنت گل چشمہ“ پر گاڑیوں‘ قالین اور کپڑے وغیرہ دھونے کے واقعات کو روکے کیونکہ سالہا سال سے قدرتی میٹھے پانی کا یہ چشمہ نہ صرف ملحقہ دیہارت کے لئے صاف پانی کی فراہمی کا بنیادی ذریعہ ہے بلکہ یہیں سے کوہاٹ اور راول نڈی کی چھاؤنیوں کو بھی پانی کی ترسیل کی جاتی ہے۔ علاؤہ ازیں مذکورہ چشمے کا پانی شفایابی کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے بالخصوص ”لاکڑا کاکڑا (Chikenpox)“ نامی بیماری سے متاثرہ بڑوں یا بچوں کیلئے اِس کا پانی لیجایا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مقامی قبائل کیلئے صدیوں سے جاری اِس چشمے کا پانی متبرک ہے جس میں گندگی و غلاظت ڈالنے اور اِس کے پینے کے علاوہ دیگر ہر قسم کے استفادے پر پابندی عائد ہونی چاہئے۔ ذہن نشین رہے کہ برطانوی راج کے دوران مشہور و معروف ’جنت گل چشمہ‘ کے گرد دیوار اور تالاب بنائے گئے تھے تاکہ اِس سے خارج ہونے والے پانی کی بڑی مقدار ضائع ہونے سے روکی جا سکے لیکن قیام پاکستان کے بعد اِس چشمے کی دیکھ بھال‘ تعمیر و مرمت اور صفائی کا خاطرخواہ خیال نہیں رکھا گیا جس کی وجہ سے جنت گل نامی چشموں کا پانی آلودہ (ناقابل استعمال) ہو رہا ہے اور اگر ’جنت گل‘ نامی اِن چشموں سے منسوب روایات کو تسلیم نہ بھی کیا جائے تب بھی صاف و شفاف اور میٹھے پانی کے ایک انتہائی اہم ذریعے جس سے سارا سال پانی حاصل ہوتا رہتا ہے کو آلودہ کرنا نعمت ِخداوندی کی صریحاً ناقدری اُور ناشکری ہے۔ ایسا پہلی مرتبہ سننے میں نہیں آ رہا کہ ’زندہ دلان ِکوہاٹ‘ نے تاریخ و ثقافت اور علاقائی وسائل و قدرت کی عنایات کی جانب حکومتی اداروں کی توجہ دلائی ہے بلکہ اِس سے قبل بھی کئی مواقعوں پر ’بیدار دل‘ رکھنے والے کوہاٹ کے اثاثہ جات کی جانب توجہ دلاتے رہے ہیں بالخصوص آثار قدیمہ کے اُن مقامات کی جانب جہاں غیرقانونی کھدائیاں آج بھی جاری ہیں۔ کوہاٹ کے آثار قدیمہ میں غاروں کا سلسلہ جنہیں راجہ عاد اور ثمود کے دور سے منسوب کیا جاتا ہے جو پانچ ہزار سال قبل اِس علاقے پر حکمراں رہے اور اُن کے بادشاہت کے دور میں ہونے والی تعمیرات ’میاں گڑھی‘ نامی علاقے میں پائی جاتی ہیں جہاں سے بدھ مت کے بانی ’گوتم بدھ‘ کے مجسمے اور دیگر نوادرات اور آثار قدیمہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا ہے۔ میاں گڑھی کوہاٹ کے شمال مغربی میں شہری آبادی  سے قریب پانچ کلومیٹر دور ہے۔ اِسی طرح کوہاٹ کے قرب و جوار میں کیلشیم نامی معدنیات کی کان بھی موجود ہے‘ جس کی خاطرخواہ حفاظت نہ ہونے کی وجہ سے یہ معدنی ذخیرہ بھی تباہی کے دہانے پر دکھائی دیتے ہیں۔کوہاٹ کے پتھریلے اور ریتلے علاقوں میں پانی کے چشمے بطور خاص توجہ کے لائق ہیں‘ جو صدیوں سے بہہ رہے ہیں اور روایات کے مطابق سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک جی نے بھی اِن چشموں کا دورہ کیا ہے۔ اِن کے علاوہ بابائے پختون کہلانے والے احمد شاہ ابدالی (سدوزئی) کا آبائی قبرستان بھی یہیں قائم ہے جنہیں ’درانی قلعہ‘ کہا جاتا ہے جو ایک چھوٹی سی پہاڑی (سطح زمین سے قدرے بلندی) پر بنایا گیا ہے۔ اِسی طرح نسبتاً جدید تاریخی تعمیرات میں 1930ء میں قائم ہونے والا ’برٹش ڈاک بنگلہ‘ بھی توجہ (بحالی) چاہتا ہے۔ حکومتی اداروں کی عدم دلچسپی کے باعث 1834ء میں تعمیر ہونے والی بہادر کوٹ کی مسجد مسمار ہو چکی ہے۔ اہل کوہاٹ خوشحال گڑھ ریلوے پل جو کہ لوہے سے بنی ہوئی ہے اُس کے ناکارہ قرار دیئے گئے حصے کو بھی بحال کرنے کا مطالبہ رکھتے ہیں تاکہ وہ ماضی کی طرح شام کے اوقات دریائے سندھ کے کنارے سیروتفریح کیلئے جمع ہو سکیں اور اُنہیں دریا کو عبور کرنے والی ریل گاڑی کا نظارہ پھر سے دیکھنے کو ملے۔ کوہاٹ کے معلوم سیاحتی مقامات  وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی توجہ کے مستحق ہیں‘ جو سیاحتی ترقی کے ذریعے معیشت و معاشرت کی بہتری کا عزم رکھتی ہے۔