وزراء کیلئے کارکردگی ایوارڈ

وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ میرے خیالات انقلابی تھے نظام میں فوری تبدیلیاں لاناچاہتا تھا مگر نظام میں کمزوریوں کے باعث ایسا نہیں ہوسکا۔ وزیر اگر اچھا کام نہیں کریں گے تو میں کیا کرسکتا ہوں۔وفاقی کابینہ کے 10 بہترین وزراء کو ان کی شاندار کارکردگی پر اسناد دینے کی تقریب سے خطاب میں وزیراعظم نے کہا کہ دنیا میں وزارت ہو یا دیگر شعبے۔ سب میں سزااور جزاکا نظام ہونا چاہیے۔ بیوروکریسی میں کارکردگی کی بہتری کیلئے مراعات دینے چاہئیں۔ بہترین کارکردگی کامظاہرہ کرنیوالی وزارتوں کوآئندہ بھی مراعات دی جائیں گی۔کارکردگی کی بنیاد پر وزارتِ مواصلات کا پہلا نمبر رہا، وفاقی وزیرمراد سعید تمام وزراء پر بازی لے گئے۔وفاقی وزیر اسد عمر، ڈاکٹر ثانیہ نشتر، شیریں مزاری، خسرو بختیار، معید یوسف، عبدالرزاق داؤد، شیخ رشید، شفقت محمود اور فخر امام بھی وزیرِ اعظم کی ٹیم کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔بہترین کارکردگی دکھانے والی وزارتوں کے ملازمین کو اضافی الاؤنس دیا جائے گا۔انفرادی طور پر بہترین کارکردگی کے حامل وزراء ڈاکٹر ثانیہ نشتر،اسد عمر،شاہ محمود، شیخ رشید، فروغ نسیم،مراد سعید، ملک امین اسلم،خسرو بختیار، عبدالرزاق داؤد،عمر ایوب، حماد اظہر، شوکت ترین، فواد چوہدری، اعظم سواتی اورشبلی فرازکو تعریفی سرٹیفیکیٹ دیئے گئے۔جزا و سزا کا نظام ہر ادارے میں ہونا چاہئے بہترین کارکردگی پر انعامات اور اسناد کی تقسیم سے لوگوں کو اپنی کارکردگی مزید بہتر کرنے کی شہ ملتی ہے۔اسی طرح فرائض سے غفلت، لاپرواہی برتنے والوں کو سزا دینے سے دوسرے لوگ بھی عبرت پکڑتے ہیں۔تاہم بنیادی چیز کارکردگی جانچنے کا پیمانہ ہے۔ پسند و ناپسند کی بنیاد پر کارکردگی جانچنے سے جزا و سزا کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے بعض سیاست دانوں نے انعامات کے حقدار قرار پانے والے وزراء کی کارکردگی سے عوام کو بھی آگاہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری جانب ایوارڈ سے محروم رہ جانے والے وزراء بھی کافی ناراض ہیں۔ انسانوں کو راضی کرنا واقعی بہت مشکل ہے۔ ایک کو نوازیں تو دوسرا ناراض ہوجاتا ہے۔ اور سب کو یکساں طور پر نوازنا حکومت کیلئے ممکن نہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ سارے وزراء نوازے جانے کے قابل بھی نہیں ہوتے۔فی الحال یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ وفاقی وزراء کو ایوارڈز اور تعریفی اسناد کے ساتھ نقد انعامات بھی ملے ہیں یا نہیں۔حکومت کے ناقدین پہلے ہی سیخ پا بیٹھے ہیں کہ ایک طرف حکومت معاشی بحران اور ماضی کی حکومتوں کو کوسنے میں لگی ہوئی ہے جبکہ دوسری جانب صحت کارڈ، احساس پروگرام، انصاف وظائف، دسترخوان، پناہ گاہ اور دیگر منصوبوں پر خرچ کررہی ہے اس کی بجائے پیسے بچا کر عوام کو بجلی، گیس، گھی، کوکنگ آئل اور پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی دی جاتی تو سب کا بھلا ہوتا۔حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے ان فلاحی منصوبوں سے لاکھوں لوگوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے جن کو فائدہ نہیں ملتا۔وہ ان پروگراموں کو فضول خرچی اور وسائل کے ضیاع سے تعبیر کر رہے ہیں۔ بات پھر وہی آتی ہے کہ انسان کسی حال میں خوش نہیں ہوتا۔شاید یہی وجہ ہے کہ سیاست دان اقتدار میں آنے کے بعد کانوں میں روئی ٹھونستے ہیں کہ کوئی اچھی بری بات انہیں سنائی ہی نہ دے۔