حزب اختلاف کا دعویٰ ہے کہ عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کیلئے حکومت مخالف تحریک چلا جا رہی ہے اور اِس جدوجہد کو منطقی اور فیصلہ کن نتیجے تک پہنچانے کا بھی فیصلہ کر لیا گیا ہے جس کے تحت تحریک ِانصاف کی ایک اتحادی جماعت (مسلم لیگ قائد اعظم) کے رہنماؤں سے ملاقات کی گئی ہے تاکہ ایوان کے اندر ’تحریک عدم اعتماد‘ لائی جائے اور وفاقی حکمراں جماعت (تحریک انصاف) کو حاصل عددی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرکے کامیابی حاصل کی جائے۔ سیاست میں ”نمبر گیم“ کی خاص اہمیت ہوتی ہے اور اِسی کی بنیاد پر قانون سازی اور اہم قومی فیصلوں کی پارلیمان سے تائید و حمایت (منظوری) لی جاتی ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے ساڑھے تین آئینی مدت گزرنے کے بعد جو لائحہ عمل طے کیا ہے اُس کی کامیابی اور ناکامی دونوں ہی بے معنی حاصل ہوں گے۔ اِسی طرح حزب اختلاف کی جماعتیں جس مؤقف اور ضرورت کے تحت حکومت مخالف جدوجہد کا حصہ ہیں اور اپنے جملہ وسائل بروئے کار لا رہے ہیں حقیقت میں اُس کا تعلق عام آدمی (ہم عوام) کے مسائل سے نہیں بلکہ احتساب کے اُس عمل کی رفتار اور طریقہئ کار پر اثرانداز ہونا ہے‘ جس کی زد میں ماضی کی حکمراں جماعتوں کے اراکین نسبتاً زیادہ بڑی تعداد میں آئیں گے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کے ”شور شرابے“ کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ جب اُن کا احتساب ہو تو وہ اِسے ’سیاسی انتقامی کاروائی‘ کے طور پر پاکستانی عوام اور دنیا کے سامنے پیش کر کے جوابدہی سے راہئ فرار اختیار کریں۔ عالمی سیاست میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ حزب اختلاف اپنی نیک نامی کے لئے قومی اداروں کی ساکھ اور اُن کی کارکردگی کو مشکوک بنائیں لیکن پاکستان میں ہر حکومتی ادارے کی ساکھ بدنامی کی دلدل میں نہ صرف دھنسی ہوئی ہے اور ہر دن مزید دھنس رہی ہے!کون نہیں جانتا کہ پاکستان کا عام آدمی (ہم عوام) مہنگائی سے نبردآزما اور مشکل ترین معاشی حالات میں اپنے معمولات و اخراجات میں تبدیلیاں لا رہے ہیں۔ کل تک جن اشیا کا استعمال ضرورت کے طور پر ہوتا تھا آج وہی آسائش کے زمرے میں شمار ہونے لگی ہیں جیسا کہ بجلی و گیس کا استعمال اب نسبتاً احتیاط سے کیا جاتا ہے۔ ماضی میں بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ (تعطل) پر جس قدر احتجاج ہوتا تھا آج ایسا نہیں ہے کیونکہ ہم عوام اِس بات میں عافیت سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی ضرورت سے بھی کم بجلی و گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کا استعمال کریں! اِس پوری صورتحال سے جو معاشرہ جنم لے رہا ہے اُس میں سہولیات (آسائشوں) کی بدستور ہو رہی کمی دکھائی دیتی ہے لیکن کچھ ایسی بھی ضروریات ہیں‘ جن کی خریداری میں ”بچت“ کے نکتہئ نظر سے کمی نہیں کی جا سکتی جیسا کہ ادویات اور علاج معالجہ۔ اِس حقیقت کا احساس کرتے ہوئے تحریک انصاف احساس پروگرام کے ذریعے مستحق طبقات تک امداد پہنچانے کے خصوصی اقدامات کر رہی ہے اور اگرچہ اِس بات کو ابھی تک ظاہر نہیں کیا گیا لیکن آئینی مدت کے آخری سال صحت انصاف کارڈ کے تحت ’اُو پی ڈی‘ بھی مفت کر دی جائے گی۔ سردست ’صحت انصاف کارڈ‘ کے ذریعے صرف اُس صورت میں مفت علاج کی سہولت میسر ہوتی جبکہ معالجین کسی مریض کو علاج معالجے کے لئے ہسپتال میں داخل کریں۔ وفاقی سطح پر فیصلہ سازوں کو مہنگائی کا احساس ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ملک کی نصف سے زائد آبادی کے لئے مہنگائی سے بنیادی اور فوری علاج کا مالی بوجھ برداشت کرنا بھی ممکن نہیں رہا اِس لئے ’صحت انصاف کارڈ‘ کے ذریعے معمولی و عمومی امراض کا علاج بھی مفت کر دیا جائے گا اور یہ سہولت ہر خاص و عام کے لئے یکساں مہیا کی جائے گی۔حزب اقتدار کو حزب اختلاف کی منصوبہ بندی اور رابطوں سے پریشان نہیں ہونا چاہئے بلکہ اِن کا توڑ سوچنے اور اُسے عملی جامہ پہنانے کیلئے کوششیں زیادہ تیز کر دینی چاہیئں۔ مخالفانہ (سیاسی) بیان بازی سے اگر کچھ بھی حاصل ہو سکتا ہے تو وہ سوائے عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات (وسوسوں) کے سوا کچھ نہیں۔حزب اختلاف چاہتی ہے کہ حکومت غلطیاں کرے‘ جن سے فائدہ اُٹھایا جائے یہ بات سامنے آتی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے سالانہ اربوں روپے (ترقیاتی منصوبوں) کرتی رہی ہیں تو پھر یہ سارے اخراجات اور یہ ساری غیرمعمولی کوششیں کہاں گئیں کہ اِن کا ذکر تک بہتر کارکردگی کرنے والوں کی فہرست میں نہیں آیا‘ جن کے مطابق گزشتہ سال (دوہزاراکیس) کے دوران (مہنگائی کے سبب) پاکستان کی اکثریتی آبادی کیلئے اشیائے خوردونوش ناقابل رسائی ہیں اور (مذکورہ جائزے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ) جیسے جیسے مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے ویسے ویسے عوام کی قوت خرید کم ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ اثر کھانے پینے پر مرتب ہوتا ہے۔ مذکورہ ”گلوبل ہنگر انڈیکس 2021ء“ میں پاکستان کو 116ممالک کی فہرست میں 92ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ یہ صورتحال بھی یکساں تشویشناک ہے کہ پاکستان میں خوراک کا عدم تحفظ بڑھ رہا ہے۔ مذکورہ عالمی جائزے (گلوبل ہنگر انڈکس فہرست) میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر کے چالیس اعشاریہ دو فیصد بچے کم غذا ملنے کی وجہ سے کمزور ہیں۔ اٹھائیس اعشاریہ نو فیصد بچے کم وزن جبکہ 53.7 فیصد خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں۔