دو فروری دوہزاربائیس: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے توسیعی فنڈ سہولت (EFF) کے تحت پاکستان کیلئے اپنے ’چھٹے جائزے‘ کو مکمل کیا اُور اس سلسلے میں امریکہ کے دارالحکومت (واشنگٹن ڈی سی) سے جاری کئے گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ مذکورہ جائزہ مکمل ہونے سے پاکستان کو 75 کروڑ ایس ڈی آر (قریب ایک ارب ڈالر) دیئے جائیں گے جس کے بعد آئی ایم ایف پروگرام کی جانب سے موجودہ حکومت کو ملنے والا حالیہ قرض دو ہزار ایک سو چوالیس ملین ایس ڈی آر یعنی تین ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے اور یہ پاکستان کے لئے ’آئی ایم ایف‘ کی جانب سے مختص رقم (کوٹے) کے ایک سو چھ فیصد کے برابر ہے۔ اِس بات کو اگر آسان الفاظ میں بیان کیا جائے تو ’آئی ایم ایف‘ نے حکومت کی جانب سے ٹیکس جمع کرنے کی کارکردگی و صلاحیت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے قرض کی اگلی قسط جاری کر دی ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ’آئی ایم ایف‘ صرف اُن ممالک کو ’ای ایف ایف‘ قسم کے قرض جیسی سہولت فراہم کرتا ہے جس کے حکومتی ادارے مضبوط نہ ہوں اُور وہ اپنی ساختی کمزوریوں کی وجہ سے درمیانی مدت کے ادائیگیوں کے توازن کے ایسے سنگین مسائل (بحران) کا سامنا کر رہے ہوں کہ جنہیں دور کرنے میں وقت لگتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ پاکستان نے چار ارب چھبیس کروڑ اَسی لاکھ ایس ڈی آر یعنی چھ ارب ڈالر کے لئے آئی ایم ایف کے ساتھ جولائی دوہزاراُنیس میں 39 ماہ پر محیط ’ای ایف ایف‘ معاہدہ کیا تھا جس کے تحت پاکستان کے لئے 210 فیصد کوٹہ مقرر کیا گیا جس میں سے 106 فیصد کوٹے کا قرض وصول کیا جا چکا ہے۔ آئی ایم ایف کے مذکورہ پروگرام کا مقصد پاکستان کی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں مدد دینا اور کورونا وبا کی وجہ سے متاثرہ معیشت و معاشرت نیز روزگار کے مواقعوں کا تحفظ‘ معاشی اور قرضوں کی واپسی کے لئے پائیدار اور ادارہ جاتی اصلاحات پر عمل درآمد ہے تاکہ مبینہ طور پر مضبوط‘ روزگار سے بھرپور اور دیرپا ترقی کی بنیاد ڈالی جا سکے جس سے پاکستان اور پاکستانیوں کو طویل المدتی فائدہ پہنچے۔ پاکستان کو قرض کی نئی قسط جاری کرنے کے ٹھیک دس دن بعد ’آئی ایم ایف‘ نے پاکستانی معیشت کے بارے میں مفصل رپورٹ جاری کی اور خبردار کیا کہ پاکستان کے سرکاری ادارے قومی خزانے پر بوجھ ہیں اور یہ بوجھ اب ناقابل برداشت حد سے زیادہ ہو چکا ہے۔ رپورٹ کے خصوصی باب میں کہا گیا ہے کہ ”خسارے میں چلنے والی حکومتی اداروں (ایس او ایز) کے ہنگامی واجبات اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ اب حکومتی ضمانت سے انہیں پورا نہیں کیا جا سکے گا جو اضافی خطرے کی نشاندہی ہے۔“ عالمی مالیاتی فنڈ نے ریاستی ملکیتی کمپنیوں (ایس او ایز) کے ہنگامی واجبات کو بڑا مالیاتی خطرہ قرار دیتے ہوئے اپنے پروگرام کے تسلسل کو جون کے اختتام تک نئے ایس او ای قانون کی منظوری سے مشروط کردیا تا کہ ان کمپنیوں کے شفاف انتظامی امور کو یقینی بنایا جاسکے۔ ذہن نشین رہے کہ حکومتی اداروں کے ہنگامی واجبات مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کے قریب آٹھ فیصد یا کم و بیش پچاس کھرب روپے ہیں جبکہ حکومت نے ’گردشی قرضوں‘ کو ’جی ڈی پی‘ کے ایک فیصد کے مساوی تسلیم کرتی ہے اُور عالمی ادارہ یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ ”ہنگامی واجبات“ ایک تکنیکی اصطلاح ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی ادارے کے ذمے کل کتنے واجبات (یا مالی ذمہ داریاں) ہیں جو اُسے مستقبل میں درپیش ہوں گی جیسا کہ کسی غیر یقینی واقعے مثلاً قانونی دعوے کی صورت اُسے مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اُور ایسے ہنگامی واجبات پہلے سے معلوم نہیں ہوتے اُور نہ ہی کسی منصوبہ بندی (بیلنس شیٹ) میں دکھائے جاتے ہیں مگر انہیں حکومتی منصوبہ بندی میں خارج از امکان نہیں کیا جاتا۔آئی ایم ایف قرضہ حکومتی پالیسیوں پر اعتماد کا مظہر ہے جس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے کیلئے مربوط منصوبہ بندی ضروری ہے۔