مودی حکومت کی سفاکانہ پالیسیوں کے خلاف بھارت کے اندر بھی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ مشہوربھارتی مصنفہ اور نقاد ارندھتی رائے کا کہنا ہے کہ ہندو قوم پرستی یوگوسلاویہ اور روس کی طرح ہندوستان کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں توڑنے کا سبب بن سکتی ہے،مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرکے اور نو لاکھ فوج کی تعیناتی کے ذریعے بھارت نے وادی کو عملاً چھاؤنی میں تبدیل کردیا ہے۔ کشمیریوں نے بھارتی تسلط سے آزادی اور حق خود ارادیت کیلئے تحریک شروع کی ہے اگرچہ کشمیری ہندوستان کو ہرا نہیں سکتے، لیکن کشمیر کا مسئلہ ہندوستان کو کھا جائے گا۔ انہوں نے بھارت کی موجودہ صورتحال کوانتہائی مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک دن آئے گا ہندوستانی عوام نریندر مودی اور بی جے پی کے فاشزم کے خلاف مزاحمت کا اعلان کریں گے۔ بھارتی عوام جس گڑھے میں گرے ہوئے ہیں اس سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔انہیں اپنے عوام پر بھروسہ ہے وہ اس تاریک سرنگ سے ضرورنکلیں گے۔بھارتی مصنفہ کے یہ تاثرات ان کے ملک کی اندرونی خلفشار کا پتہ دیتے ہیں جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار میں آئی ہے ہندوستان نے ریاستی دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والے ملک کے طور پر اپنی شناخت کرائی ہے۔ دن دیہاڑے سڑکوں اور چوراہوں میں ہندو انتہا پسند مسلمانوں،سکھوں، عیسائیوں اور دلتوں کو سرعام کوڑے ماررہے ہیں،انہیں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ان کی خواتین کی آبروریزی کی جاتی ہے۔ان کے گھروں اور دکانوں کو نذر آتش کیاجاتا ہے۔اور بے شرمی کی انتہا یہ ہے کہ اس عمل کی ویڈیو یوٹیوب پر اپ لوڈ کر دی جاتی ہے۔۔فاشزم کی ایسی کوئی مثال دیگر جمہوری ممالک میں نہیں ملتی۔بھارت مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کو اپنا داخلی معاملہ قرار دیتا ہے اور وہ کشمیرکوزبردستی ہندوستان کا حصہ بناناچاہتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کشمیری بھارت کا حصہ کیوں بننا چاہیں گے؟حق خود ارادیت کا تقاضا ہے کہ انہیں اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا حق ملے جو آزادی وہ چاہتے ہیں انہیں حاصل ہونی چاہیے۔کشمیریوں کے عقائد، حسب نسب، رسومات، روایات، تاریخ، ثقافت، تمدن اور عادات و اطوار دیگر ہندوستانیوں سے مختلف ہیں وہ ہندواتواکی بالادستی کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔فوجی طاقت اور اسلحہ کے زور پر کسی قوم کو زیادہ عرصہ اپنا غلام بناکر نہیں رکھا جاسکتا۔حالیہ برسوں میں اتر پردیش، آندھراپردیش سمیت مختلف بھارتی ریاستوں میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ جو غیر انسانی سلوک ہورہا ہے اس سے ہندوستان میں آزادی کی تحریکوں کو مزید شہ ملی ہے۔ خصوصاً مسلمان طالبات کو حجاب پہن کر سکول، کالج اور یونیورسٹی جانے پر جس ناروا سلوک کا نشانہ بنایاجارہا ہے اس کی عالمی برادری نے بھی مذمت کی ہے۔ امریکہ نے بھی دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ لباس کا انتخاب بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے۔ جس طرح کسی کو سکرٹ، پتلون، شرٹ، دھوتی اور کرتا پہننے سے نہیں روکا جاسکتا اسی طرح کسی کو حجاب پہنے سے نہیں روکا جاسکتا ہے۔حالیہ چند مہینوں کے دوران بھارت میں مختلف عوامی اجتماعات میں مسلمانوں کی نسل کشی کے اعلانات کئے گئے جن کی عالمی سطح پر توشدید الفاظ میں مذمت کی گئی لیکن مودی سرکار نے مسلمان کی نسل کشی کی تحریک چلانے والوں کی رسمی طور پر مذمت کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔اس صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے ارندھتی رائے کے موقف میں کافی وزن پایاجاتا ہے کہ ہندوستان کابھی سوویت یونین کی طرح شیرازہ بکھرنا طے ہے اور ہندوستان کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی تمام تر ذمہ داری نریندر مودی اور ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی پر عائد ہوگی۔ اندرون ملک مودی کو اب شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اس کی مقبولیت کا گراف آخری حد تک نیچے گر گیا ہے جس سے آنے والے انتخابات میں بی جے پی کا بوریا بستر گول ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے۔