پشاور کہانی: سرفہرست مسائل

صوبائی دارالحکومت پشاور کے ”سرفہرست مسائل“ میں ذرائع آمدورفت (ٹریفک) کے حوالے سے 3 بنیادی مسائل ضلعی انتظامیہ کے زیرغور ہیں‘ جنہیں حل کرنے کیلئے الگ الگ حکمت عملیاں وضع کی گئی ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اِس سے قبل بھی‘ ماضی و حال میں اِن مسائل کے حل کی کوششیں کی گئیں لیکن اُن کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔بس ریپیڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی)‘ کے باوجود بھی  سڑکوں پر ٹریفک کا دباؤ کم نہیں ہو پا رہا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ پشاور کوئی طلسماتی شہر تو نہیں کہ اِس کے مسائل راتوں رات حل ہوں۔ کیا اِس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ ’پشاور کو سمجھنا‘ بھی ایک ضرورت ہے۔ کسی ایسے شہر کو بنا سمجھے کس طرح مسائل حل ہوں گے  بہرحال‘ پشاور کے ضلعی فیصلہ ساز  ایک مرتبہ پھر سر جوڑ کر بیٹھے اور اِس مرتبہ بھی (سولہ فروری دوہزاربائیس کے اجلاس) جو کہ کمشنر پشاور ڈویژن کی زیرصدارت منعقد ہوا تین بنیادی مسائل پر غور کیا گیا۔ 1: ٹریفک کا بہاؤ بحال رکھنے اور اِس میں خلل کا باعث بننے والے امور کی اصلاح ہونی چاہئے 2: خراب یا زائد المعیاد انجن رکھنے والی گاڑیوں سے پیدا ہونے والی صوتی و فضائی آلودگی پر قابو پانے کیلئے ایسی تمام گاڑیوں جن میں سنگل سٹروک اور 2 سٹروک آٹورکشہ بھی شامل ہیں‘ اُنہیں قبضے میں لے لیا جائے۔ 3: پشاور کی حدود میں ایسی تمام صنعتوں کے خلاف حسب قواعد کاروائی کی جائے گی جو فضا‘ برسرزمین اور زیرزمین آلودگیاں پھیلانے کا باعث بن رہی ہیں۔ پشاور کے ٹریفک مسائل پر قابو پانے کے لئے ”میگا آپریشن (فیصلہ کن کاروائی)“ کرنے کے فیصلے کے کئی پہلو ہیں‘ جن کا بنیادی نکتہ (ہدف) یہ ہے کہ ”بے ہنگم ٹریفک کی اصلاح یعنی ٹریفک روانی میں بہتری لائی جائے“ اور یہ مقصد اُس وقت تک حاصل نہیں ہوگا جب تک پشاور میں ٹریفک لائٹس‘ یک طرفہ ٹریفک پر سختی سے عمل درآمد اور مرکزی تجارتی منڈیوں کو شہر سے باہر منتقل نہیں کر دیا جاتا۔ یہ کہنا درست نہیں کہ فضائی آلودگی کیلئے صرف اور صرف سنگل اور 2 سٹروک آٹو رکشہ ذمہ دار ہیں بلکہ کم سے کم چالیس سال پرانی سکول بسیں آٹورکشاؤں سے کہیں گنا زیادہ اور زہریلا (ثقیل) دھواں خارج کرتی ہیں، ذہن نشین رہے کہ کسی آٹو رکشہ سے بارہ گھنٹے مسلسل چلنے کی صورت میں اِس قدر دھویں اور شور کا اخراج نہیں ہوتا جس قدر ایک سکول بس تین گھنٹے صبح اور تین گھنٹے بعداز دوپہر (تعلیمی اداروں کے اختتام پر) شہر کا چکر لگاتے ہوئے آلودگی پھیلاتی ہے جبکہ اِس جانب بارہا توجہ دلائی گئی ہے کہ بڑی بسوں کی بجائے چھوٹی گاڑیاں طلبہ کی آمدورفت کیلئے استعمال کی جائیں۔ ضلعی انتظامیہ کے نئے فیصلوں کے مطابق روٹ پرمٹ نہ رکھنے ولی تمام گاڑیوں بشمول چنگ چی رکشے‘ لوڈرز‘ منی وینز وغیرہ غیرقانونی قرار دیدی گئی ہیں اور اِن کی تیاری کے جملہ کارخانے بھی غیرقانونی تصور ہوں گے جنہیں فوری طور پر بند کیا جائے گا۔ دیگر اضلاع میں رجسٹرڈ کمرشل گاڑیوں کے پشاور میں استفادے کو بھی غیرقانونی قرار دیدیا گیا ہے جبکہ سگنل اور ٹوسٹروک آٹو رکشاؤں سمیت فور سٹروک آٹورکشے بھی قبضے میں لئے جائیں گے اور انہیں سکریپ کر کے آٹو رکشہ مالکان کو ’بی آر ٹی‘ کی طرز پر معاوضہ کی ادائیگیاں کی جائیں گی۔ سولہ فروری کے بعد آئندہ اجلاس اکیس فروری (چار دن کے وقفے) سے طلب کیا گیا ہے جس میں اِس بنیادی سوال کے عملی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا جائے گا کہ ایک لاکھ سے زائد آٹو رکشہ‘ چنگ چی اور لوڈرز کو قبضے میں مجوزہ بینظیر ہسپتال کیلئے مختص (200کنال) اراضی میں تو رکھا جائے گا لیکن کب تک!؟