خصوصی افراد: حقوق اور استحقاق

چوبیس مئی دوہزاراٹھارہ: سندھ کی صوبائی اسمبلی نے ”پرسنز ود ڈس ایبلٹیز بل 2018ء“ نامی قانون منظور کیا جسے ”سات جون دوہزاراٹھارہ‘‘ سے سندھ بھر میں لاگو کر دیا گیا۔ مذکورہ قانون 13 دسمبر 2006ء کے روز اقوام متحدہ کے منظورکردہ ’افراد باہم معذور‘ کے حقوق سے متعلق خصوصی معاہدے‘ مؤتمر یا عہدوپیمان میں دیئے گئے اصولوں کی روشنی میں بنایا گیا اور اِس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ریاست کسی بھی شخص بالخصوص معذور افراد سے امتیازی سلوک نہیں کرے گی۔ معذور افراد کو مراعات دی جائیں گی تاکہ وہ دیگر معاشرے کے دیگر طبقات کے مساوی‘ ہم پلہ اور شانہ بشانہ قومی تعمیروترقی میں اپنا کردار ادا سکیں۔ دس جنوری دوہزاربیس: وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے قومی اسمبلی میں مسودہئ قانون بعنوان ”آئی سی ٹی رائٹس آف پرسنز ود ڈس ایبلٹی ایکٹ 2020ء“ جمع کروایا اور فروری 2020ء میں قومی اسمبلی نے 14 صفحات پر مشتمل اِس قانون کو منظور کر لیا جس کا بنیادی نکتہ پاکستان کے آئین میں مذکور معذور افراد کے انسانی حقوق کی ادائیگی اور اِنہیں معاشرے میں باعزت مقام اور یکساں تعلیم و تربیت اور ترقی کے موقع فراہم کرنا ہے۔ مذکورہ قانونی دستاویز قومی اسمبلی کی ویب سائٹ (na.gov.pk) سے مفت حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ قومی اسمبلی 1981ء میں خصوصی افراد کی بہبود‘ اِن کے ملازمتی حقوق اور اِن کی بحالی کے لئے حکومتی امداد کا قانون منظور کر چکی ہے جس کے تحت معذور افراد کے ’آئینی حقوق‘ کو تسلیم کرتے ہوئے اِن حقوق کی ادائیگی کا عہد کیا گیا۔اکتیس اکتوبر دوہزاراکیس: صوبہ پنجاب کے وزیر برائے سماجی بہبود (سوشل ویلفیئر) اور بیت المال سیّد یاور عباس بخاری نے ’معذور افراد‘ سے متعلق مسودہئ قانون صوبائی اسمبلی میں جمع کروانے کا اعلان کیا‘ جس کا بنیادی نکتہ خصوصی افراد کے ہر قسم کے حقوق کی ادائیگی کرتے ہوئے انہیں سماجی‘ سیاسی اقتصادی طور پر بااختیار بنانا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ایسا نہیں تھا کہ اِس سے قبل پنجاب میں خصوصی افراد سے متعلق قانون موجود نہیں تھا بلکہ6 اپریل 2015ء کے روز پنجاب کی صوبائی اسمبلی نے خصوصی افراد کو بااختیار بنانے اور اِن کی بحالی سے متعلق ایک ترمیمی بل منظور اور بعدازاں اِسے پورے صوبے پر لاگو کر دیا تھا الغرض یہ کہ پاکستان میں معذور افراد کے حقوق سے متعلق صوبائی اور وفاقی سطح پر قانون سازی ہر ِحکومت میں ہوتی رہی ہے۔سیاسی جماعتوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت اپنے انتخابی منشور میں اَفراد باہم معذور کے حقوق تسلیم کرتی ہے اور برسراقتدار آنے کے بعد اِن حقوق کی ادائیگی کا وعدہ کرتی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ معذور افراد کے بارے اصلاحات قانون سازی اور اِس قانون سازی کی روشنی میں قواعد سازی سے آگے نہیں بڑھ سکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے مرکزی رہنماؤں یا کلیدی فیصلہ سازوں پر مشتمل اسٹیئرنگ یا کور کمیٹی میں معذور افراد کی نمائندگی دکھائی نہیں دیتی اور نہ ہی یہ سیاسی جماعتیں خصوصی افراد کو قومی یا بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کے لئے نمائندگی اور سہارا دیتے ہیں۔ یقینا معذور افراد سے متعلق قانون سازی بھی اہم ہے لیکن یہ خصوصی افراد تعلیم و تربیت کے شعبے میں خاطرخواہ حکومتی توجہ سے محروم ہیں۔ حال ہی میں وفاقی حکومت کی کوششوں سے یکساں نصاب ِتعلیم ملک بھر میں مرحلہ وار لاگو ہونے کے عمل کا آغاز ہوا ہے لیکن اِس مرحلے پر بھی ’افراد باہم معذور‘ کے لئے نصاب ِتعلیم و تربیت پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی۔ خصوصی افراد کے حقوق کی ادائیگی کا ”آسان طریقہ“ یہ ہے کہ اِنہیں مقامی حکومتوں (بلدیاتی نظام) میں شریک سفر کیا جائے اور جس طرح مزدور کسان نوجوان خواتین اُور اقلیتوں کی سرپرستی کی گئی ہے اِسی طرح خصوصی افراد کے لئے کم سے کم ضلعی سطح پر ایک نشست مختص کی جائے۔ اِن کی اکثریت مالی طور پر مستحکم بھی نہیں ہوتی اور جس قدر بھی خودانحصار ہوں لیکن اِنہیں روزمرہ امور میں توجہ کی ضرورت رہتی ہے۔ پاکستان کے کل 160 اضلاع ہیں۔ اگر قومی سطح پر ایک سو ساٹھ اضلاع سے افراد باہم معذور بطور بلدیاتی نمائندے ضلعی فیصلہ سازی میں شامل کئے جائیں تو اِس سے صوبائی اُور وفاقی سطح پر سماجی بہبود اُور بیت المال کے اداروں کا کام کاج نہایت ہی آسان ہو جائے گا اُور قومی سطح پر ’خصوصی افراد‘ کے حقوق کی ادائیگی ایسی مثالی صورت میں عملاً ممکن بھی ہو جائے گی۔