سیاسی مصلحتیں 

اس وقت ملک میں جو سیاسی حالات ہیں ان کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ سردست معاملات پر حکومت کی گرفت مضبوط ہے  تاہم حز ب اختلاف بھی پہلے سے زیادہ سرگرم ہے اور کچھ ایسے پتے کھیل رہی ہے کہ جس سے حکومت اگر زیادہ پریشان نہیں تو کسی حد تک فکرمند ضرور ہے۔ ایسے میں اطلاعات ہیں کہ وفاقی اور پنجاب کی صوبائی سطح پر اتحادی جماعتوں کو کابینہ میں مزید عہدے دینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ حکومت کو پارلیمان میں حاصل عددی اکثریت کو برقرار (قائم) رکھا جا سکے۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حزب اختلاف کی جماعتیں حکومت کے دو اہم اتحادیوں مسلم لیگ (قائداعظم) اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم پی) سے ملاقاتوں میں مصروف ہیں اور ایسی  افواہیں گرم ہیں کہ حزب اختلاف مذکورہ دونوں جماعتوں کو ’تحریک ِانصاف‘ سے علیحدگی پر آمادہ کرنے کے قریب ہے۔ اِس موقع پر حزب اختلاف کی جانب سے یہ اعلان بھی سامنے آیا ہے کہ وزیراعظم کے خلاف جلد پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد پیش کی جائے گی۔ ان حالات میں آج کل سوشل میڈیا ونگز ہر جماعت کیلئے اہم حیثیت اختیار کرگئے ہیں جو عوام کو اپنی طرف مائل کرنے کے کھیل میں مصروف ہیں اور جوڑ توڑ کے حوالے سے جماعتی مفادات اور عوامی دلچسپی کو مد نظر رکھتے ہوئے مہم چلانے میں مصروف ہیں۔ ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق اگر کوئی سیاسی جماعت ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام تک رسائی (تعلق) استوار کر لیتی ہے تو اُسے اپنی ہم عصر جماعتوں پر برتری حاصل ہو سکتی ہے اور آج کی دنیا میں سوشل میڈیا کی اہمیت نسبتاً زیادہ ہے جہاں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں‘ سیاسی کارکنوں اور تجزیہ کاروں کے درمیان لمحہ بہ لمحہ مکالمہ (بحث و مباحثہ) جاری رہتا ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ تحریک انصاف کیلئے اتحادیوں کو مطمئن کرنا ممکن نہیں ہوگا کیونکہ سیاسی تاریخ رہی ہے کہ پاکستان کی کوئی ایک بھی حکومت اپنے اتحادیوں کو ہمیشہ خوش کرنے میں کامیاب و کامران نہیں رہی یہ دیکھنا یقینا دلچسپ ہوگا کہ ہنگامہ خیز سیاسی فیصلوں میں مسلم لیگ (قائداعظم) کو کتنی وزارتیں ملتی ہیں کیونکہ اتحادی جماعتوں میں شامل قاف کی قیادت شروع دن سے تحفظات رکھتی ہے اور رواں ماہ کے آغاز میں چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی کے گھر ہونے والی اہم شخصیات کی ملاقاتیں شہ سرخیوں میں رہی ہے لیکن چوہدری مونس الٰہی نے اِن ملاقاتوں کو معمول کی نشست و برخاست قرار دیا تاہم محسوس کیا جاسکتا ہے کہ حزب ِاختلاف حکومت کیلئے کسی حد تک خطرہ‘ ہے اور اِس کی اتحادی جماعتوں سے ’تحریک ِعدم اعتماد‘ کیلئے رابطے پریشانی کا باعث ہیں۔ سیاسی تاریخ کی کھڑکی سے دیکھا جائے تو اتحادی جماعتیں کبھی بھی مخلوط حکومت کا ساتھ نہیں چھوڑتیں لیکن ایسا وہ صرف اُسی صورت کرتی ہیں جبکہ انہیں اِس بات کا یقین  ہوکہ مستقبل کی حکومت میں اُنہیں زیادہ حصہ داری ملے گی۔ سیاسی جماعتیں فی الوقت قومی انتخابات سے زیادہ بلدیاتی انتخابات پر نظریں جمائے ہوئے ہیں اور اِس مرحلے پر تحریک ِعدم اعتماد کی ناکامی انتہائی ضروری ہے۔ وفاقی اور صوبائی کابینہ اراکین کی تعداد میں اضافے اور اتحادی جماعتوں کو شامل کرنے  کا نتیجہ کیا  سامنے آتا ہے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی ایوان کے ہر رکن کی خواہش ہوتی ہے کہ اُسے کابینہ میں عہدہ ملے تاکہ وہ اِس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے انتخابی حلقے میں اپنی سیاسی حیثیت مضبوط کر سکے جو آئندہ عام انتخابات میں اِس کی کامیابی کی ضمانت بن جائے۔