بلدیاتی نظام، واضح اشارہ

خیبرپختونخوا میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کا دوسرا مرحلہ آئندہ ماہ (مارچ دوہزاربائیس) کے اِختتام کے ساتھ مکمل ہو جائے گا تاہم اِن انتخابات کے حوالے سے جاری بحث کے عنوانات الگ الگ ہیں جیسا کہ کیا مقامی حکومتوں کے قیام کیلئے انتخابات سیاسی بنیادوں پر ہونے چاہیئں جبکہ بلدیاتی نظام کے بنیادی مقاصد اِس بات کی ”واضح دلیل“ ہیں یہ نظام کسی طرزحکمرانی کا حصہ نہیں جیسا کہ عموماً سمجھا (تصور) کیا جاتا ہے بلکہ بلدیاتی نظام بذات خود ایک ایسا طرزحکمرانی ہے‘ جس کی وسعت و افادیت پارلیمانی جمہوری نظام سے مشابہ تو ہے لیکن اِس کی تاثیر زیادہ ہونے کے ساتھ کم خرچ بالا نشین بھی دکھائی دیتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوری نظام میں سیاسی جماعتوں کی اپنی اہمیت ہے اور ان کی تعداد زیادہ ہو یا کم ان کی موجودگی سے جمہوریت پر عمل درآمد عوامی رائے کے ذریعے ہوتی ہے۔ تاہم اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ سیاسی جماعتوں کا ڈھانچہ ایسی بنیادوں پر استوار ہو کہ جہاں ملک میں جمہوریت کے ساتھ ساتھ پارٹیوں کے اندر بھی جمہوری کلچر مضبوط ہو اور ہر سیاسی کارکن کو جماعت کی قیادت کے مراحل تک پہنچنے کا موقع ملے۔ جس کی طرف پہلے کی نسبت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے‘ اٹھارہ فروری دوہزاربائیس کے روز غیرسرکاری تنظیم ’پٹن (Pattan)‘ کی جانب سے جاری ہونے والے اعدادوشمار اگرچہ کم شرح پولنگ (ووٹنگ) کی وجوہات اور انتخابی نتائج مرتب ہونے میں تاخیر کا ذکر نہیں کرتے لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ تلخ ہے کہ الیکشن کمیشن پہلے مرحلے کے انتخابات کیلئے پوری طرح تیار نہیں تھا اور اِس کی وجہ سے کئی حلقوں میں تنازعات ہنوز جاری ہیں۔کہاوت ہے کہ ”منفی پہلو  ہمیشہ تفصیلات میں پنہاں ہوتا ہے“ اور یہ محاورہ خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے پر صادق آتا ہے۔ یہ شاید پہلا موقع تھا کہ بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر کرائے گئے۔ سماجی امور پر نظر رکھنے والے ایک عرصے سے بحث کر رہے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی مقبولیت مجموعی طور پرماضی کے مقابلے میں کیوں کم ہو رہی ہے اور اِس بات کو بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے نے بخوبی ثابت کر دیا ہے کہ عوام کا دل جیتنے کیلئے سیاسی جماعتوں کو اپنے طرز عمل پر غور کرنا ہوگا! یقینا ملک کی سبھی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں نے بلدیاتی انتخابات  میں دیکھ لیا کہ کس طرح عوام نے حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہوئے صرف انتخابی اُمیدواروں کی کامیابی یا ناکامی ہی میں کردار ادا نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں  کی ساکھ کے حوالے سے بھی اپنی رائے دیہے اور ایسا کرنے کی  ایک شاید وجہ موروثی سیاست بھی ہے‘  جس کے عوام میں یہ تاثر ابھرتا ہے کہ کچھ جماعتوں کی سیاست عوامی مفادات کی بجائے اپنے مفادات کی تکمیل ہے۔ اِس سے متعلق عوامی شعور میں اضافے میں سوشل میڈیا بھی کلیدی کردار ادا کر رہا ہے کہ جو نکات  دیگر ذرائع ابلاغ میں زیربحث نہیں آتے اُن پر سوشل میڈیا صارفین زیادہ مفصل اظہار خیال کرتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے سے متعلق اپنی کارکردگی کا اندازہ تھا‘ اِسی لئے کسی جماعت کی طرف سے زیادہ تو کسی کی طرف سے کم مخالفت سامنے آئی۔ خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع جیسا کہ بنوں‘ کرک‘ ہنگو‘ خیبر اور باجوڑ میں آزاد امیدواروں نے 72 سے 80فیصد ووٹ حاصل کئے۔ ضلع پشاور میں یہ تناسب قریب پچاس فیصد رہا۔ نوشہرہ سے کل 893 اُمیدواروں نے انتخاب میں حصہ لیا جن میں صرف 179 کا تعلق سیاسی جماعتوں سے تھا اور 80 فیصد سے زائد اُمیدواروں کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے نہیں تھا خیبرپختونخوا کے بلدیاتی الیکشنز میں ایسی بڑی اکثریت کامیاب ہوئی ہے‘ جو سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں کھڑی ہوئی۔ شہروں کے علاوہ مضافاتی علاقوں جیسا کہ ہنگو اور خیبر میں بالترتیب یہی صورتحا ل رہی کہ بعض سیاسی جماعتوں کے نامزد کردہ 80 فیصد امیدواروں کو شکست ہوئی۔