سال دوہزاراکیس کے دوران فی یونٹ بجلی کی قیمت فروخت اوسطاً 0.055 امریکی ڈالر یعنی قریب 9 روپے رہی جبکہ یہی بجلی صارف کو قریب بیس روپے فی یونٹ فروخت ہوئی لیکن اِس کے باوجود بھی خریدی جانے والی بجلی (اخراجات) اور فروخت کی جانے والی بجلی (آمدنی) کے درمیان توازن نہیں اور اگر رواں ماہ بجلی کی قیمت میں گزشتہ ماہ سمیت اضافہ کیا جاتا ہے تو بجلی کی فی یونٹ قیمت عام گھریلو صارفین کیلئے تیس روپے کے قریب یا اِس سے تجاوز کر جائے گی معروف قول ہے کہ توانائی کی بچت ہی سستی توانائی کا ذریعہ ہو سکتی ہے اور یہ بھی معروف قول ہے کہ ایک یونٹ بجلی بچت کا مطلب ایک یونٹ بجلی پیدا کرنا ہے۔ مذکورہ دونوں اقوال کو مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان میں بجلی کی قیمتیں اعتدال میں آنے کا ایک ہی طریقہ (حل) ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ بجلی حسب ضرورت استعمال کی جائے۔ جب ہم ”حسب ضرورت“ کہتے ہیں تو اِس کا قطعی مطلب یہ نہیں کہ بجلی کم استعمال کی جائے بلکہ بجلی زیادہ سے زیادہ استعمال کرنی چاہئے لیکن حسب ِضرورت اور سوچ سمجھ کر۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ ایک طرف حکومت مہنگی بجلی خریدتی ہے جسے سستے داموں بیچنا پڑتا ہے اور اِس سے قومی خزانے پر اربوں روپے کا بوجھ ہے لیکن دوسری طرف یہی بجلی سٹریٹ لائٹس کی صورت ساری رات بلاضرورت بڑے شہروں کی سڑکوں اور گلی کوچوں میں جلتی رہتی ہیں! اگر پشاور کی بات کی جائے تو ایسے کئی علاقے ہیں جہاں بیک وقت ایک دو نہیں بلکہ درجنوں بلب ساری رات روشن رہتے ہیں اور کوئی ایک بھی یہ نہیں کہتا کہ ’اسراف ہو رہا ہے!‘ آخر یہ کیسی بجلی کی قلت اور جنس کی گرانی ہے کہ اِسے یوں بلاضرورت خرچ کیا جاتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ بجلی کے تقسیم کار اداروں کے ملازمین اور دفاتر میں جس بیدردی سے بجلی کا استعمال ہوتا ہے‘ اُسے دیکھ کر بھی کوئی یہ نہیں کہتا کہ آخر اِس کا بوجھ بھی عام آدمی (ہم عوام) ہی کو منتقل ہوگا لہذا بجلی سوچ سمجھ کر یعنی حسب ضرورت (کم سے کم) استعمال کرنی چاہئے۔ شادی بیاہ‘ خصوصی مواقعوں‘ تہواروں اور دیگر ایام پر قومی بجلی کا بیدردی ضیاع ہوتا ہے تو اِس پر کوئی آواز نہیں اُٹھاتا اور نہ ہی نعمتوں کی اِس ناقدری و ناشکری (بصورت اسراف) پر احتجاج کیا جاتا ہے۔مغربی ممالک کی حکومتیں بجلی کی بچت‘ اِس کے ترسیلی نظام کی فعالیت‘ پیداواری صلاحیت میں حسب آبادی و ضرورت اضافے‘ پیداواری خودکفالت و خودانحصاری اور متبادل توانائی کے ذرائع میں توجہ‘ غوروفکر اور مالی وسائل سے سرمایہ کاری کرتی ہیں اور اِن مجموعی اصلاحات کا سلسلہ 1973ء میں آئے تیل بحران کے بعد سے جاری ہے۔ اعدادوشمار گواہ ہیں جن ممالک میں بجلی کی بچت اور پیداواری و ترسیلی وسائل کی ترقی و توسیع کو قومی ترجیحات میں شامل رکھا جاتا ہے‘ وہی برقی رو سے خاطرخواہ فائدہ اُٹھا رہی ہیں۔ پاکستان کیلئے بجلی قومی خزانے اور عوام کی جیبوں پر بوجھ بنی ہوئی ہے اور کسی کی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ آخر بجلی کی قیمتوں کو قرار کیوں نہیں ہے اور یہ کسی ایک کروٹ کیوں نہیں بیٹھ رہیں!آج کی دنیا میں توانائی انسانی زندگی کے تمام شعبوں اور بنیادی ضرورت سے لیکر آسائشوں تک کا احاطہ کرتی ہے۔ کوئی بھی شعبہ ہو سماجی یا اقتصادی‘ بجلی کے بغیر اِس کی نبضیں رک جائیں گی اور مختلف شعبوں کے صارفین‘ پروڈیوسرز اور تاجروں کی صورت صارفین کی بہت سی اقسام ہیں لیکن اِن سبھی صارفین کیلئے بجلی کی بچت اور کم بجلی سے زیادہ پیداواری صلاحیت حاصل کرنا ہدف نہیں ہے۔ یہی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ (درپیش بحران) ہے کہ یہاں کسی بھی مسئلے کو مسئلہ سمجھا ہی نہیں جاتا۔ کیا یہ بات لائق توجہ نہیں کہ آج کی موٹر گاڑیاں اَسی اُور نوے کی دہائی کی گاڑیوں کے مقابلے نصف سے بھی کم ایندھن استعمال کرتی ہیں اور ایسے ممالک بھی ہیں جنہوں نے درآمدی تیل پر انحصار کم کرنے کے لئے سال 2030ء کا ہدف رکھا ہوا ہے جب اُن کے ہاں برقی قوت سے چلنے والی گاڑیاں عام استعمال ہوں گی لیکن اِس سے قبل وہ پائیدار اور متبادل ایندھن کے ذرائع کو ترقی دے رہے ہیں جبکہ پاکستان فی یونٹ بجلی کی قیمت ہی میں پھنسا ہوا ہے کہ آخر اِس کی مناسب حد ہے اور بحران کو مدنظر رکھتے ہوئے بجلی سے استفادہ کس قدر ہونا چاہئے۔ سوچئے کہ توانائی کے شعبے میں کہیں پاکستان دنیا سے پیچھے اور ایک الگ ہی سمت میں رواں دواں تو نہیں؟ کہیں ہم ایسی شاہراہ پر تو نہیں چل رہے جہاں روشنیوں سے زیادہ ’اندھیرے کا راج‘ ہے!؟