اکیس فروری کو دنیا بھر مادری زبانوں کادن منایاگیا پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی مختلف تقریبات کااہتمام کیاگیا بہت کم لوگوں کویہ علم ہوگاکہ اس دن کی ابتداء ایک نہایت دردناک واقعہ سے ہوئی جب مشرقی پاکستان بنگالی زبان کو قومی زبان کا درجہ دینے کامطالبہ کرنے والے طلبہ پر گولیا ں چلائی گئیں ان طلبہ کی یاد میں ڈھاکہ میں شہید مینار تعمیر کیاگیا جواب تک قائم ودائم ہے اور اس کے بعد سے اقوام متحدہ نے عالمی سطح پر مادری زبانوں کادن منانا شروع کردیا ہرزبان کو تحفظ کے ساتھ ساتھ اس کاجائزمقام دینا بھی ضروری ہوتاہے لیکن اپنی زبان سے محبت کسی اور زبان سے نفرت کی بنیاد پر ہرگزنہیں ہونی چاہیے ہمارے ملک کی تاریخ اس بات کی واضح عکاس ہے کہ کس طرح زبان آپ کی سیاسی قوت کی موجودگی یا عدم موجودگی کا فیصلہ کرتی ہے اس سے پہلے بھی گذشتہ سالوں میں انہی کالموں میں باربار کہاجاتارہاہے کہ ملک میں مادری زبانوں کی اکثریت کامستقبل غیر محفوظ ہوچکاہے ستر کی دہائی کے اوائل میں سندھ میں سندھی اور اردو بولنے والوں کے درمیان فسادات ہوئے۔ آج بلوچستان میں سرکاری اسکولوں میں نہ بلوچی پڑھائی جاتی ہے اور نہ ہی براہوی، یہاں تک کہ اختیاری مضمون کے طور پر بھی نہیں۔لہٰذا یہ بات قابلِ غور ہے کہ تربت یونیورسٹی، جو دراندازی سے سب سے زیادہ متاثر علاقے میں واقع ہے، وہاں طلبا کسی بھی مضمون سے زیادہ بلوچی زبان بحیثیتِ مضمون کا انتخاب کرتے ہیں۔اگر ہم واضح سیاسی حقائق کو ایک طرف رکھتے ہوئے بھی دیکھیں، تب بھی مقامی زبانوں، خاص طور پر چھوٹی اور پسماندہ برادریوں کی زبانوں کو، ان کا جائز حق دے کر ہم ثقافتی رنگارنگی کو محفوظ بناتے ہیں۔زبان لوگوں کی اجتماعی یادداشت کا خزانہ ہوتی ہے، ایک ایسی وراثت جو ایک لسانی گروہ کو دوسرے سے مختلف بناتی ہے۔وفاقی اور صوبائی سطحوں پر حکام اس معاملے میں اپنے فرائض سے غافل رہے ہیں۔ 2014 میں اسی مضمون پر ایک پارلیمانی دستاویز میں اس ملک میں بولی جانے والی 72 زبانیں گنوائی گئی تھیں، جن میں سے دس یا تو "مشکلات کا شکار ہیں "، یا "خاتمے کے قریب ہیں " اگر ہم اپنے صوبہ کی بات کریں تو ماہرین کے مطابق پاکستان کا ضلع چترال لسانی اعتبار سے دنیا کا سب سے زرخیز علاقہ ہے اور ایک چھوٹے سے ضلعے میں کم از کم دس مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔صرف چترال ہی نہیں، پاکستان کے بیشتر علاقے زبانوں کے لحاظ سے خاصے مالامال ہیں۔ حکومتِ پاکستان کے پاس سرکاری سطح پر اس ضمن میں کوئی اعداد و شمار موجود نہیں ان زبانوں کی شناخت، ترویج اور تحفظ کے لیے حکومتی سطح پر کیا کوششیں ہو رہی ہیں؟اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گذشتہ مردم شماری میں پاکستان میں بولے جانے والی 74 میں سے صرف نو کی گنتی کی گئی ہے، جب کہ بقیہ 65 زبانوں کو 'دیگر' کے کے زمرے میں ڈال دیا گیا ہے۔ان زبانوں کے بولنے والوں کا کہنا ہے کہ مردم شماری میں ان زبانوں کی عدم شمولیت دراصل ان 'چھوٹی' زبانیں بولنے والوں کے حصے میں آنے والی محرومیوں کے عمل کا تسلسل ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورتِ حال میں اس زبان کا مستقبل سخت خطرے میں ہے۔مادری زبان انسان کی شناخت، ابلاغ، تعلیم اور ترقی کا بنیادی ذریعہ ہے لیکن جب زبان ناپید ہوتی ہے تو اس کے ساتھ مختلف النوع کی ثقافت کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے اور ان میں شامل مختلف روایات، منفرد انداز فکر اور ان کا اظہار بہتر مستقبل کے بیش قیمتی ذرائع بھی ختم ہو جاتے ہیں عالمی سطح پر گلوبلائزیشن پراسس کے باعث بیشتر زبانوں کو لاحق خطرات میں یا تو اضافہ ہو رہا ہے یا وہ ناپید ہو چکی ہیں یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بائیس کروڑ کی آبادی کے ملک میں سوائے چند ماہرین لسانیات کے کوئی بھی نہیں جانتاکہ پورے پاکستان میں کتنی زبانیں اوربولیاں رائج ہیں جہاں تک مادری زبان کاتعلق ہے تو اس کے تحفظ کی کوشش وہی لوگ کرسکتے ہیں جو اس زبان کے بولنے والے ہیں اورجواس کے علمی ذخائر کے امانتدار ہیں کوئی اور شخص یاسماج اس کی حفاظت کی ذمہ دار ی نہیں لے سکتاکیونکہ اگر زبانوں کی اہمیت کاشعور کسی شخص میں موجودتووہ اپنی مادری زبان کوبچانے کیلئے کچھ بھی کرے گا اگر کسی زبان کے لوگ خودہی اپنی زبان سے بیگانہ ہوجائیں یا اپنی زبان سے منہ موڑ کر کسی دوسری زبان کے ہوجائیں تو اس میں کسی اور کانہیں ان کااپناہی قصورہے لہٰذا اپنی زبان کو زندہ رکھنے کا فرض اس کے بولنے والے ہی نبھائیں گے کسی اور سے اس کی توقع حماقت کے سوا کچھ نہیں تاہم حکومت کو بھی اس حوالہ سے توجہ دینی ہوگی جبکہ میڈیا کاکردار بھی اس معاملہ میں مسلمہ ہے مادری زبانوں کایہی المیہ ہے کہ ترقی کے اس دو ر میں بھی ان کامستقبل محفوظ دکھائی نہیں دیتا اور اس کی ذمہ داری حکومتوں کے ساتھ ساتھ زبانیں بولنے والوں پر بھی عائد ہوتی ہے جو گلوبلائزیشن سے متاثرہوکر انگریز ی ہی کو اوڑھنا بچھونا بنائے رکھے ہوئے ہیں ہم سب کو بھی اپنی اداؤں پر غور کرناچاہئے۔