اس وقت عالم اسلام جن حالات سے دوچار ہے اس میں اتحاد اور اتفاق وہ اہم ہتھیار ہے جس سے ہم غیروں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ تاہم بد قسمتی سے عالم اسلام کو یکجا کرنے اور ان کے مشترکہ وسائل سے بھر پور استفادہ کرنے کیلئے کوئی منظم کوشش آج تک نہیں کی گئی۔ ایک وقت تھا کہ مسلمان ممالک کے یکجا ہونے کے جب آثار نظر آنے لگے تو غیروں کے پاؤں کانپنے لگے تھے اور مختلف سازشوں سے ان مسلم رہنماؤں کو راستے سے ہٹایا گیا جو عالم اسلام کو متحد کرنے کیلئے منصوبہ بندی کر رہے تھے، رابطہ عالم اسلامی کی سپریم کونسل کے اجلاس سے خطاب میں امام کعبہ شیخ عبدالرحمان السدیس کا کہنا تھا کہ دنیاکے مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں۔آپس میں اتفاق کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی پوری دنیا کا مسئلہ ہے اسے مذہب کے ساتھ منسلک کرنا درست نہیں۔ انہوں نے مسلمان حکمرانوں کو خبردار کیا کہ امت سخت حالات سے گزر رہی ہے، جب تک مسلمان مشترکہ طور پر کوشش نہیں کریں گے،ان کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔امام کعبہ کا کہنا تھا کہ ایک انسان کو قتل کرنا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔ اللہ اور رسول کے ماننے والوں کو فرقہ واریت سے دور رہنا چاہئے۔ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر ہی فلاح پائی جاسکتی ہے۔امام کعبہ کہتے ہیں کہ اتفاق میں برکت اور نفاق میں تباہی ہے۔ آج عالم اسلام کے پاس ترقی کرنے کی تمام لوازمات اور وسائل موجود ہیں۔ہمارے پاس سونے اور قیمتی پتھروں کی وسیع کانیں ہیں۔ تیل اور گیس کے وسیع ذخائر بھی ہیں۔ ہمارے پاس زرخیز زمین بھی ہے۔ برف پوش پہاڑ، گھنے جنگل، وافر آبی ذخائر بھی ہیں۔جفاکش افرادی قوت بھی ہے۔ضرورت صرف ان وسائل کو مشترکہ طور پر اجتماعی ترقی کیلئے بروئے کار لانے کی حکمت عملی طے کرنے کی ہے۔جہاں تک انتہا پسندی کی بات ہے تو یہ مسلم ممالک کی بجائے غیر مسلم ممالک میں زیادہ موجودہے، بھارت میں ریاستی سرپرستی میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ جو ناروا سلوک روا رکھا جارہا ہے۔ اس کی غیر جانبدار مبصرین اور عالمی اداروں نے بھی مذمت کی ہے۔ لیکن چونکہ بھارت بھی مسلمانوں کا حریف ہے اس لئے دیگر اقوام ان کی حلیف بن گئی ہیں اور وہاں پر ہندو انتہاپسندی سے صرف نظر کررہی ہیں۔ اس وقت اسلامی ریاستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ غیروں سے ناپسندیدہ شرائط پر ان سے بھاری شرح سود پر قرضہ لے کر معیشت کو سہارا دینے کے بجائے ایک دوسرے کے وسائل سے استفادہ کریں۔ خود انحصاری کی پالیسی اپنائیں۔دیکھا جائے تو کوئی ایسی دولت نہیں جو مسلمان ممالک کو قدرت نے فیاضی کے ساتھ عطا نہیں کی ہے۔ چاہے وہ تیل او رگیس کی صورت میں توانائی کے ذخائر ہیں یا پھر یورنیم اور سونے جیسی قیمتی معدنیات۔ اسلامی ممالک میں ہر ایک کے پاس کوئی نہ کوئی ایسی طاقت ہے جس سے وہ اگر استفادہ کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ مغربی ممالک سے قرضہ جات کیلئے قطار میں کھڑے ہوں۔ جس طرح یورپی ممالک نے اپنے لئے بینک بنائے ہیں اسی طرح اسلامی ممالک کے اپنے مالیاتی ادارے ہوں جو ضرورت پڑنے پر اسلامی ممالک میں سرمائے کی کمی کو پورا کریں اور انہیں ترقی و خوشحالی سے ہمکنار کریں۔ اگر اسلامی ممالک اپنے وسائل سے مل کر بھر پور استفادہ کرنے کے قابل ہوتے تو آج افغانستان میں مدد کیلئے دوسرے ممالک کی ضرورت نہ ہوتی بلکہ اسلامی ممالک خود ہی اس مشکل سے نبرد آزما ہوکر اس مسئلے کو حل کرچکے ہوتے۔