کورونا: غیرسنجیدہ رویئے

خیبرپختونخوا میں کورونا وبا کے کسی علاقے میں غیرمعمولی طور پر پھیلنے اور ایسی ہنگامی وبائی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ’ریپیڈ ریسپانس ٹیمیں‘ بنائی گئی تھیں جنہوں نے اُنیس فروری سے کام چھوڑ ہڑتال کر رکھی ہے یعنی اُنیس فروری سے کورونا وبا کی تشخیص کے نمونے نہیں لئے جا رہے۔ ہڑتال کی وجوہات سے قطع نظر شعبہ صحت سے تعلق رکھنے والے مذکورہ ملازمین کی اِس ہڑتال کی اہمیت کیا ہے‘ اِس کا اندازہ اِس نتیجے سے لگایا جا سکتا ہے کہ مذکورہ عرصے کے دوران کورونا وبا سے تین اموات ہوئی ہے جبکہ تین دن میں ایک سو بتیس نئے کورونا مریضوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اگر کورونا وبا کی تشخیص کرنے کا عمل شروع نہیں ہوتا تو حکام کیلئے اِس بات کا تعین کرنا مشکل ہوگا کہ خیبرپختونخوا کے کن اضلاع یا علاقوں میں کورونا وبا پھیل رہی ہے جہاں حسب حکمت عملی ’سمارٹ لاک ڈاؤن‘ نافذ کرنے سے کورونا وبا کا پھیلاؤ روکا جا سکتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ’نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر‘ کی ہدایات پر ’ریپیڈ ریسپانس ٹیمیں‘ تشکیل دی گئی تھیں جو خیبرپختونخوا کے مختلف حصوں میں ہر روز دس ہزار سے زائد کورونا معلوم کرنے کیلئے نمونے اکٹھا کرتی تھی‘ جنہیں بعدازاں تشخیص کے لئے متعلقہ لیبارٹریز میں بھیجا جاتا تھا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ’ریپیڈ ریسپانس ٹیمز‘ کے اراکین اپنے موٹرسائیکلوں کا استعمال کرتے تھے جن کے ایندھن کا خرچ بھی اُنہیں اپنی تنخواہ ہی سے ادا کرنا ہوتا تھا اور ایک ایسی صورت میں جبکہ اُنہیں حسب معاہدہ باقاعدی سے تنخواہ نہیں ملتی تو اکثریت کیلئے ممکن نہیں رہا کہ وہ اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر جاری رکھ سکیں۔ اِس بارے میں محکمہئ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ ”کورونا وبا‘ چونکہ ایک ہنگامی صورتحال ہے اِس لئے محکمہئ صحت کے دیگر ملازمین کی طرح اِنہیں بھی جلد تنخواہیں اور واجبات کی ادائیگی کر دی جائے گی۔“ریپڈ ریسپانس ٹیموں کا قیام اپریل دو ہزار بیس کے دوران عمل میں آیا تھا اور اِس سلسلے میں خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں 280 ٹیمیں بنائی گئیں جبکہ ہر ٹیم میں 3 اراکین شامل ہیں۔ اِن ٹیموں کو یہ ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ کورونا وبا کی علامات رکھنے والے افراد اور اُن کے قریب رہنے والے 15 افراد کی ناک یا گلے سے نمونے اکٹھا کریں۔ یہ ٹیمیں خیبرپختونخوا میں کورونا وبا سے ہوئی پہلی موت جو کہ ضلع مردان میں ہوئی تھی کے بعد تشکیل دی گئی تھیں تاکہ کورونا وبا کے پھیلنے پر نگاہ رکھی جا سکے اور صورتحال کنٹرول سے باہر نہ ہو۔ اِن ریپیڈ ریسپانس ٹیموں کی کارکردگی کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 280 ٹیموں کے کل 840 اراکین میں سے 80 فیصد کورونا وبا سے متاثر ہوئے اور اِن کی اکثریت نے اپنے اہل خانہ کو بھی متاثر کیا۔ صف اول کے اِن گمنام سپاہیوں کی خدمات کا اعتراف کرنا تو دور کی بات کہ اِن کی وجہ سے وفاقی اور صوبائی سطح پر فیصلہ سازوں کو حکمت ِعملیاں وضع کرنے کا مناسب وقت ملتا تھا اور اِسی وجہ سے کورونا کی وبائی صورتحال کو سمارٹ لاک ڈاؤنز کے ذریعے ہنگامی شکل اِختیار کرنے سے روک لیا گیا۔ گردوپیش میں موجودگی کے باوجود بنا ژرف نگاہی دکھائی نہ دینے کورونا جرثومے سے نمٹنے کیلئے ’فوری کاروائی کرنے والے دستے (ریپیڈ ریسپانس ٹیم)‘ عوامی جمہوریہ چین کی اختیار کردہ حکمت عملی کا حصہ تھی‘ جس کی وجہ سے وہاں کورونا ’زیرو‘ کر دیا گیا اور سرمائی کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد ممکن ہوسکا جبکہ پاکستان کورونا کی ایک سے زیادہ اقسام موجود ہیں اور بالخصوص خیبرپختونخوا میں جہاں کی افرادی قوت کا بیرون ملک سے آنا جانا لگا رہتا ہے‘ کورونا کی ہر دن بدلتی صورتحال پر نگاہ رکھنا ملک کے دیگر حصوں کی نسبت زیادہ اہم ہے بیماری کے خلاف متحرک دستوں کا ایک انسانی پہلو بھی ہے کہ جو ’ہیلتھ ورکرز‘ اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال کر ’کورونا وبا‘ کی تلاش میں شہر شہر اور گاؤں گاؤں سرگرداں رہتے تھے‘ اُن کے حقوق کی ادائیگی بھی بلاتاخیر اور حسب وعدہ و معاہدہ ترجیحی بنیادوں پر ہونی چاہئے۔ کورونا وبا کا یہ پہلو زیادہ لائق تشویش ہے کہ اِس جرثومے کی نئی اقسام‘ جو زیادہ تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں‘ اگر بروقت تشخیص نہ ہوں اور متاثرہ علاقوں کے بارے میں فوری حکمت ِعملی وضع نہ کی جائے تو بعدازاں اِس کے پھیلنے کو روکنا ممکن نہیں رہتا۔