گزشتہ دنوں ایک عالم دین کا بیان سننے کا موقع ملا جس میں انہوں نے واضح الفاظ میں شادی بیاہ میں سادگی اور سنت نبوی ؐکے اصول اپنانے پر زور دیا ہے اور رسوم ورواج اور اسراف کی شدید الفاظ میں مخالفت کی ہے انکے مطابق شادی کے موقع پر صرف ایک دعوت ہونی چاہئے وہ ہے اپنی استطاعت کے مطابق ولیمہ‘ انہوں نے سادگی اپنانے پر زور دیا ہے بارات کے کھانے کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ کون اپنا جگر گوشہ رخصت کرتے ہوئے خوش ہوتا ہے اگرچہ رخصتی ایک اہم ذمہ داری کی ادائیگی ہے مگر اس وقت والدین اور لڑکی کے خاندان کی بیٹی کی جدائی کی وجہ سے جو حالت ہوتی ہے اسکا اندازہ سب کو ہوتا ہے ایسے میں کون باشعور لڑکی کے والدین اور اسکے خاندان کو سینکڑوں مہمانوں کی خاطر تواضع کی ذمہ داری بھی حوالے کریگا۔ہمارے معاشرے میں رسوم ورواج اورشادی منگنی اور دیگر مواقع پر نت نئی تقریبات کا اضافہ ہورہا ہے لوگ قرض لیکر‘ جائیداد اور اثاثے بیچ کر ان تقریبات کیلئے انتظام کرتے ہیں۔ سینکڑوں ہزاروں لوگوں کو کھانا کھلا سکیں اب تو ہزاروں مہمانوں کو بلانے اور تعداد میں ایک دوسرے بازی لے جانے کی دوڑ چل پڑی ہے تقریبات میں نت نئے کھانے شامل کئے جارہے ہیں کئی شادیوں میں تقریبات کئی کئی دن تک جاری رہتی ہیں اس کیلئے پیسے کا انتظام کرنے کی غرض یا تو سالوں محنت کی جاتی ہے قرض لیا جاتا ہے یا جائیداد وغیرہ بیچ کر سینکڑوں لوگوں کو بلایا جاتا ہے بدقسمتی سے ان ساری تقریبات میں سب سے زیادہ پریشانی بھی لڑکا لڑکی کے والدین کو ہی ہوتی ہے کہ مہمانوں کی خاطر تواضع میں کوئی کمی نہ رہ پائے ان کی شان میں کوئی کمی نہ ہو باہر معاشرے میں لڑکا لڑکی اور انکے خاندان محدود مہمانوں قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کیساتھ اس خوشی کے موقع پر لطف اندوز ہوتے ہیں مگر ہم اسکے برعکس کئی کئی دن خوار ہوتے ہیں اور پھر بھی نہ لوگوں کو خوش کیا جاسکتا ہے نہ ہی آج کے دور میں کسی کو دولت یا شان وشوکت سے مرعوب کیا جاسکتا ہے الٹا لوگ سوباتیں سناتے ہیں۔ پڑھے لکھے معاشروں میں لوگ اب باتوں سے بہت آگے نکل گئے ہیں رواج اور لوگوں کی باتوں پر دھیان دینے کی بجائے وہ وہی کرتے ہیں جو ان کو خوشی دیتی ہے جو انکے لئے آسان ہوتا ہے اور جو صحیح ہوتا ہے ایک ایسے ہی دوست کے بیٹے کی شادی میں گزشتہ دنوں دیکھا تو40 کے قریب قریبی رشتہ دار اور دوست مدعو تے دلہا اور دلہن دونوں ڈاکٹر تھے جبکہ انکے والد پڑھے لکھے اور اچھے عہدے پر صاحب حیثیت شخص تھے جس کو بھی اس شادی کا علم ہوا گلہ کرنے کی بجائے کہ انکو دعوت نہیں دی گئی سب نے انکی تعریف کی اور اس بات پر زور دیا کہ کسی کو انکی تقلید کرنی چاہئے اور اپنے لئے اور دوسروں کیلئے آسانیاں پیدا کرنی چاہئے۔