حالات کا تقاضا

دہشت گردی کی تازہ لہر سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بھارت نے پاکستان میں ترقی کے سفر کو روکنے اور خاص کر سی پیک منصوبوں کی تکمیل میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے ہر ممکن کوششیں کر رکھی ہیں۔بلوچستان میں پیش آنے والے واقعات میں سیکورٹی فورسز کے مطابق دہشت گرد اور ان کو پناہ دینے والے بھارت اور افغانستان کے ساتھ رابطے میں تھے پاک فوج‘پولیس اور عوام کی بیش بہاقربانیوں کے بعد ملک میں امن بحال ہوا ہے اگرچہ دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور وہ کوئی بڑی کاروائی کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے تاہم ایکا دکا حملوں سے وہ امن میں رخنہ ڈالنے میں مصروف ہیں۔بد قسمتی سے اب بھی پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی بیشتر کاروائیاں افغانستان سے ہوتی ہیں اگرچہ افغانستان کے طالبان ماضی کی حکومتوں کی طرف پاکستان مخالف عناصر کی سرپرستی نہیں کررہے تاہم اب ھی ماضی کی طرح افغانستان میں سرگرم عمل پاکستان مخالف عناصر کو ہمارے مشرقی پڑوسی بھارت کی بھرپور سرپرستی اور مالی معاونت حاصل ہے۔ طالبان حکومت کے قیام کے بعد بھارت اور اس کی پروردہ دہشت گرد تنظیموں کیلئے قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں کاروائیاں کرنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں اس لئے انہوں نے بلوچستان کو تختہ مشق بنادیا ہے۔شمالی و جنوبی وزیرستان میں اگرچہ دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ رونما نہیں ہوا تاہم آئی ای ڈی کے ذریعے ریموٹ کنٹرول دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔پاکستان میں سیاسی اور اقتصادی بحران سے ملک دشمن عناصر پورا پورا فائدہ اٹھارہے ہیں۔ صرف سیکورٹی فورسز، پولیس، رینجرز اور دیگر ایجنسیاں اس خونی کھیل کو نہیں روک سکتیں۔ پوری قوم، حکومت اور ملک کی سیاسی قیادت کو قومی سلامتی کے تحفظ کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پشت پر کھڑا ہونا ہوگا۔ملک کی سالمیت کا تحفظ اولین فرض ہے پاکستان سلامت رہے گا تو ہماری سیاست بھی چلے گی۔ ہمارے کارخانے بھی چلیں گے۔ کاروبار کو بھی فروغ ملے گا ترقیاتی کام بھی ہوں گے روزگار بھی ملے گا اور ترقی و خوشحالی بھی آئے گی۔ سب سے پہلے ہمیں اپنے گھر کا اندرونی ماحول بہتر بنانا ہوگا۔ایسے حالات میں سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے۔اپنے موقف کو اجاگر کرنا حزب اختلاف کا حق ہے تاہم اس ضمن میں حالات کی نزاکت اور ملکی صورتحال کومد نظر رکھنا ضروری ہے۔ جیسے کہ پہلے ذکر کیا کہ سیاست اور حکومت تب ہی رہے گی جب یہ ملک رہے گا۔ اس لئے ملکی سلامتی کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس وقت مفاہمت کی سیاست کی ضرورت ہے اور آپس میں اختلافات کو کچھ عرصے کیلئے پس پشت ڈالا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں اور پھر حکومت کی آئینی مدت بھی پوری ہونے لگی ہے۔اس لئے جلد بازی کی بجائے ہوش سے کام لیا جائے توہر کسی کا مقصد حاصل ہو سکے گا۔حزب اختلاف نے رائے عامہ کو ہموار کرنے کی جو مہم شروع کی ہے اس کو انتخابی مہم قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا مگر ایسے میں احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے۔بہت سے ایسے مسائل ہیں جن کا حل کرنا از حد ضروری ہے اور ان میں سے سب اہم مہنگائی کی لہر کا تدارک ہے جس میں اب یوکرائن اور روس تنازعہ کے بعد مزید اضافے کا امکان ہے۔ کیونکہ تیل پیدا کرنے والے ممالک میں روس دوسرے نمبر پر ہے اور تیل کی سپلائی متاثر ہونے سے اس کی قیمتوں میں اضافے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔