انسداد منشیات

صوبائی دارالحکومت کے مختلف حصوں میں منشیات کے عادی افراد کے گروہ (جھنڈ) اِس بات کا منہ بولتا ثبوت  ہیں کہ اِنہیں نشہ آور ادویات مل رہی ہیں اور جب تک ’منشیات کی فراہمی کا سلسلہ ختم نہیں کیا جاتا اُس وقت تک منشیات کے استعمال‘ عادی افراد کا علاج‘ بحالی اور منشیات کے پھیلتا استعمال نہیں روکا جا سکے گا جس کی ایک وجہ غربت و بیروزگاری سے پیدا ہونے والی مایوسی‘ ذہنی تناؤ‘ نفسیاتی دباؤ اور سماجی محرکات بھی ہیں اور منشیات سے پاک معاشرے کیلئے اِن سبھی محرکات سے متعلق جامع حکمت عملی وضع کرنا پڑے گی۔ رسمی اجلاسوں سے منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں کمی اور اِس مسئلے کا پائیدار حل ممکن نہیں ہو سکتا جبکہ اِس سلسلے میں ماضی و حال میں کوششوں (تجربات) کے ایک جیسے نتائج گواہ ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ پشاور میں منشیات فروشوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو صوبائی دارالحکومت میں امن و امان کی صورتحال کا مؤجب اور ظاہری و معنوی خوبصورتی پر دھبہ ہے اور اِس سے نمٹنے کے لئے کمشنر پشاور کی زیرصدارت اجلاس میں جو حکمت عملی وضع کی گئی ہے اُس پر لاگت کا تخمینہ 9 کروڑ (90ملین) روپے لگایا گیا ہے اور اِس سے منشیات کے عادی ایک ہزار کا علاج معالجہ کیا جائے گا۔ کیا پشاور میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد صرف ایک ہزار یا اِس سے کچھ زیادہ ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ فیصلہ ساز منشیات کے عادی افراد کی تعداد سے متعلق جن اعدادوشمار پر بھروسہ کر رہے ہیں‘ حقیقت اُس سے کہیں زیادہ سنگین اور مختلف ہے؟ ایک ہزار منشیات کے عادی افراد کے علاج معالجے کیلئے نو کروڑ روپے مختص کرنے کی بجائے اگر اِس خطیر رقم سے کسی بھی ہسپتال (لیڈی ریڈنگ‘ خیبرٹیچنگ یا حیات آباد کمپلیکس) میں نشے کے عادی افراد کے علاج و بحالی کا مرکز تعمیر کیا جائے اور نشے کے عادی افراد کی بحالی کے سلسلے میں غیرسرکاری تنظیموں (این جی اُوز) کے تجربے اور مہارت کو اہمیت دیتے ہوئے اُنہیں بھی شامل سفر کیا جائے تو اِس سے فی کس علاج کی لاگت کم ہو گی۔ فیصلہ ساز جس ایک پہلو کو شاید غیردانستہ طور پر فراموش (نظرانداز) کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ نشے کے عادی افراد کا علاج چند دنوں یا ہفتوں میں مکمل نہیں ہوتا بلکہ اُن کے ساتھ ہفتوں نہیں بلکہ مہینوں اور سالوں تک لگاتار رابطہ رکھنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ عادی شخص کس قسم کا نشہ کر رہا ہے۔ اگر وہ ایک سے زیادہ اقسام کے نشے کا عادی ہے تو علاج اُتنا ہی طویل و مختلف ہوگا۔ اِسی طرح نشے کی عادت کتنی پرانی ہے اِس بات کا تعلق بھی علاج کی تاثیر اور تدبیر سے ہوتا ہے اور سب سے زیادہ ضروری اُس معاشرے سے گندگی کو صاف کرنا ہے جو منشیات کی فروخت کی صورت پھیلائی جا رہی ہے۔ کسی متاثرہ شخص کا چند دنوں‘ ہفتوں یا مہینوں علاج کرنے کے بعد اگر اُسے ایک ایسے ماحول میں دوبارہ دھکیل دیا جائے کہ جہاں ہر قسم کی منشیات باآسانی اور بارعایت دستیاب ہوں تو ایسی صورت میں علاج پر کروڑوں روپے خرچ کرنے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا اور علاج گاہ سے جانے کے چند روز بعد ہی وہ شخص دوبارہ نشے کی لت میں گرفتار ہو جائے گا کیونکہ ایسا ہونے کا تناسب کافی زیادہ ہے کہ ایک مرتبہ نشے کا عادی ہونے کے بعد قوت ارادی اِس حد تک کمزور ہو جاتی ہے کہ اگر متاثرہ شخص کی مسلسل نگرانی اور دیکھ بھال نہ کی جائے۔ اُسے ذہنی تناؤ یا نفسیاتی دباؤ سے الگ نہ رکھا جائے تو اندیشہ رہتا ہے کہ وہ پھر سے فوری اعصابی سکون کی تلاش کیلئے نکل کھڑا ہو۔پشاور کے ضلعی فیصلہ سازوں کو منشیات کی اُن اقسام کے پھیلاؤ اور بڑھتے ہوئے استعمال کے بارے میں غور کرنا چاہئے جو انتہائی مہنگی ہیں اور طلبا و طالبات کے اِس سے متاثر ہونے کی اطلاعات ہیں۔ اِس سلسلے میں نہ صرف انٹی نارکوٹکس فورس بلکہ قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہلکار ’آف دی ریکارڈ‘ ایسے واقعات کی تفصیلات (کہانیاں) سناتے ہیں‘ جن سے روح لرز اُٹھتی ہے کہ کس طرح شغل ہی شغل میں سگریٹ کے چند کش سے نسوار کی ایک چٹکی تک اور تمباکو والے پان سے شروع ہونے والا نشہ کا سلسلہ طول پکڑتا چلا جاتا ہے۔ طلبہ کس طرح امتحانات کی تیاری کے دنوں میں ایسی منشیات کا استعمال کرتے ہیں جن سے اُنہیں مسلسل جاگتے رہنے اور امتحان کی زیادہ بہتر تیاری کرنے میں مدد ملتی ہے لیکن درحقیقت وہ اپنے اعصابی نظام اور یاداشت (حافظے) کی صلاحیت کو متاثر کر رہے ہوتے ہیں لیکن اِس بارے میں نہ تو اُن کی خاطرخواہ رہنمائی کے اسباب موجود ہیں اور نہ ہی منشیات کی باآسانی دستیابی ناممکن حد تک دشوار بنائی جا سکی ہے!لمحہئ فکریہ یہ بھی ہے کہ صوبائی دارالحکومت پشاور میں منشیات فروشی عروج پر ہے اور نشے کے عادی افراد کی تعداد اگر ہزاروں تک جا پہنچی ہے تو دیگر اضلاع بالخصوص مضافاتی اضلاع کی صورتحال کس قدر قابل تشویش و لائق توجہ ہے۔ اِس تناظر میں ’تعلیمی اداروں کے شہر ایبٹ آباد‘ میں منشیات فروشوں کے کئی گروہوں کی موجودگی خود حکومتی ادارے تسلیم کرتے ہیں  فیصلہ سازوں کو انسداد منشیات سے متعلق حکمت عملی اور سوچ تبدیل کرنا ہوگی۔ کسی ایک منشیات فروش کو گرفتار کر کے اُس کے ذریعے سرغنے اور ’سپلائی چین (نیٹ ورک)‘ کے اُس سرے تک پہنچنا ہوگا‘ جو نوجوان نسل کو نشے کا عادی بنا کر درحقیقت پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔