آج وہ دیکھ رہے ہیں جو سنا کرتے تھے


سرکاری دفاتر کے اہل کار ہوں یا نجی اداروں سے جڑے ہوئے لوگ سب نے اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی کو اپنی سہولت کے ساتھ مشروط کر رکھا ہے، یہ سہولت ”بڑے صاحب کے موڈ“ سے لے کر دفتری اوقات میں ذاتی مہمانوں کے ساتھ دیر دیر تک چائے کے کپ کے بہانے گپ شپ کی صورت میں ہوتی ہے اور اب توسیل فون پر نہ ختم ہونے والی گفتگو بھی فرائض ِ منصبی کی ادائیگی کے راستے میں حائل ہونا شروع ہو گئی ہے اور ان باتوں کے آگے کوئی بند باندھنے کا سوچ بھی نہیں سکتا، ”بڑے صاحبان“ کی فرصت اور فراغت کا انتظار کرنے کے سو ابھلا اور کیا کیا جاسکتا ہے، اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ عام کیا خاص بلکہ خاص الخاص لوگ بھی اس بات سے آ گاہ نہیں ہیں کہ ان کے حقوق کیا ہیں اور ان کے حصول کے لئے وہ کس دروازے پر دستک دے سکتے ہیں، میری عمر کے دوستوں کو یاد ہو گا کہ ہم اپنی جوانی میں امریکہ اور یورپ اوریورپ میں خصوصاََ انگلینڈ کے بارے میں اکثریت سے سنا کرتے کہ وہاں کی عدالتوں میں عام شہری جا کر کسی کو بھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑی سہولت کے ساتھ ’سْو‘ کر سکتا ہے تو آپ سے کیا پردہ ہم پینڈو ہمیشہ ایسی خبروں کو لطیفوں اور چٹکلوں کی صورت سنتے اور انجوائے کرتے۔ منصفی شرط ہے کہ اب ایسی باتوں کو لطیفہ یا چٹکلا نہ سمجھا جائے تو اور کیا کہا جائے جس طرح سننے میں آ تا کہ کسی راہ چلتے صاحب نے ایک شخص کے خلاف عدالت میں درخواست دی اور عدالت نے اس شخص کو سو پاؤنڈ جرمانہ کی سزا سنا دی۔ ان صاحب نے درخواست میں لکھا تھا کہ میں اپنے پالتو کتے کے ساتھ بازار میں سے گزر رہا تھا اور اس شخص نے میرے کتے کو دیکھ کر بہ آواز بلند ”میاؤں“ کہہ کر اس کا مذاق اڑایا ہے، اسی طرح ایک خاتون نے اپنے شوہر کے خلاف عدالت سے رجوع کیا کہ کل میرے شوہر نے مجھے کہا کہ جرابیں تو کبھی دھو لیا کرو، دیکھو تمہارے پیروں میں کتنی میلی اور بری لگ رہی ہیں، جج نے کہا کہ یہ تو کوئی کیس دائر کرنے کی وجہ نہیں بنتی تو خاتون نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا، جج صاحب ”اس وقت میرے پیروں میں جرابیں نہیں تھیں“ ظاہر ہے اس بات پر تو جرمانہ بنتا تھا، لیکن سچی بات ہے اس طرح کے سینکڑوں واقعات سن کر ہم اسے محض لطیفہ ہی سمجھتے تھے، لیکن ستر کی دہائی کے اواخر میں میرے ایبٹ آباد کے ایک انجینئر دوست عبدالودود نے مجھے حیران کر دیا تھا جب اس نے بتایا کہ ہمارے محلے میں ایک موٹر ورکشاپ کھلنے سے ہمارا سکون غارت ہو گیا مگر ہم کیا کرسکتے تھے، اب کسی کو کاروبار سے تو نہیں رو کا جاسکتا مگر بھلا ہو میرے ہمسایہ معروف و مقبول ناول نگار ’نسیم حجازی‘ کا کہ انہوں نے عدالت میں درخواست دی ”کہ میں ایک رائٹر ہوں اور اس ورکشاپ کے شور کی وجہ سے میں اپنی توجہ اپنے لکھنے پر مرکوز نہیں رکھ سکتا، اس لئے اسے بند کرنے کے احکامات صادر کئے جائیں‘ مجھے یاد ہے میں یہ سن کر ہنس پڑا تھا کہ شاعر ادیب تو اس معاشرہ میں عضو ضعیف سمجھا جاتا ہے اس کی کون سنتا ہے،عبدالودو نے کہا کہ شنوائی ہو ئی صاحب! اور ایسی کہ دو ہفتوں کے اندر اندر ہی عدالت نے ورکشاپ کو یہاں سے منتقل کروا دیا، اب نسیم حجازی کو اپنے حقوق کا علم تھا اس لئے اس کو یقین تھا کہ عدالت اس کی سنے گی اورواقعی سنی گئی، اس کا مطلب ہے کہ یہ ہم ہی ہیں جو اپنے خلاف بہت سے ہونے والے کاموں پر خاموش ہو کر بیٹھ جاتے ہیں کیونکہ ہمیں علم ہی نہیں ہے کہ ایسے کئی ادارے مو جود ہیں جہاں بس ہمیں اپنی آواز پہنچانی ہے اور جہاں ہمیں دنوں اور ہفتوں میں انصاف مل بھی سکتا ہے، جیسے وفاقی محتسب کا ادارہ ہے، بہت کم لوگوں کو اس کا علم ہے کہ صوبائی اور وفاقی اداروں میں ان کے ساتھ ہونے والی نا انصافی یا پھر انصاف کے حصول میں تاخیر ہونے یا تاخیری حربے استعمال کرنے والے سرکار ی اہل کاروں کے خلاف وہ ایک سادہ کاغذ پر لکھی ہوئی درخواست پروفاقی محتسب یا اس کے زیر نگرانی صوبائی دفاتر میں اپنی شکایات کا اندراج کر کے مفت اور جلد انصاف حاصل کر سکتے ہیں، یہ بھی کم لوگوں کے علم میں ہو گا کہ عام آدمی کی شکایات کی روشنی میں وفاقی محتسب کی قائم کردہ کئی ایک کمیٹیوں نے شبانہ روز کام کر کے سفارشات تیار کیں جسے حکومت اور متعلقہ اداروں کو اصلاح احوال کے لئے بھیجا گیا جس کی وجہ سے بینکوں، پنشن اور تعلیم سمیت بہت سے اداروں کی نظام میں بڑی حد بہتری آئی، بلکہ میں نے شاید اس حوالے سے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ ایسی ہی مساعی کے نتیجے میں قومی بچت کے صارفین کو ان کا منافع دفاتر کے چکر لگانے کی بجائے اب بنکوں میں آسانی سے خود کار طریقہ سے منتقل ہو جاتا ہے، یہ سب باتیں مجھے اس وقت یاد آ رہی تھیں جب گزشتہ کل پشاور میں ایک بہت ہی مصروف دن گزارنے کے بعد وفاقی محتسب اعجاز احمد قریشی کے ساتھ ظہرانہ پر ہم چار پانچ دوست اکٹھے غیر رسمی گفتگو کر رہے تھے،اعجاز احمدقریشی میرے دیرینہ دوست ِ مہربان،سابق چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا بھی رہے ہیں اور جب اس صوبہ میں کچھ مشکل حالات اور اس وقت کی حکومت کی پالیسیوں کی بنا ء پر ثقافتی پروگراموں پر پابندی لگی ہوئی تھی اور نشتر ہال کو عملاً بند کر دیا گیا تھا تو اپنے لوگوں کو شستہ اور شائستہ تفریح دینے کے لئے اعجاز احمد قریشی نے ادبی سرگرمیوں کا ایک میلہ لگا دیا تھا جن کی نگرانی وہ خود کرتے تھے اورمیرا یہ اعزازہے کہ ان ادبی سرگرمیوں کی ترتیب اور نظامت کی ذمہ داری مجھے تقویض تھی، چنانچہ اس وقت ہم نے بڑے مشاعروں کے ساتھ ساتھ مشتاق احمد یوسفی، مختار مسعود،امجد اسلام امجد،عطاؤ الحق قاسمی،غوث متھراوی، ضیاء الحق قاسمی سمیت دوسرے صوبوں کے کئی قد آور ادبی زعما ء کو پشاور بلایا اور اپنے لوگوں کی ادبی تشنگی بجھائی، بہت دنوں کے بعد ملاقات ہوئی تھی بہت اچھا لگا تھا انہیں وفاقی محتسب کی ذمہ داریوں کی مبارکباد دی، زیادہ گفتگو اس حوالے سے ہوئی کہ عام آدمی تک یہ پیغام پہنچے کہ اگر انہیں سرکاری اداروں کے خلاف کوئی جائز شکایت ہے تو اسے اسلام آباد جانے کی بھی اب ضرورت نہیں وفاقی محتسب کی ویب سائٹ پر آن لائن شکایت درج کرنے کی سہولت ہے جو مفت ہے اور چند دنوں میں اس کا ازالہ کر دیا جاتا ہے۔ مجھے انعام الحق جاوید سے ہونے والی گفتگو یا دآئی وہ کہہ رہے تھے کہ مجھے خود بہت دیر میں پتہ چلا کہ سرکاری دفاتر تو ایک رہے ایک عدالت کنزیومرز کے لئے بھی موجود ہے، اور واقعی یہ بھی کم لوگ جانتے ہوں گے کہ کنزیومر کورٹ سے بھی نجی شکایات کے ازالے کے لئے رجوع کیا جاسکتا ہے، ابھی چار دن پہلے کنزیومر کورٹ نے ایک درزی کو پچاس ہزار روپے جرمانہ کر دیا اس کے خلاف لاہور کے ایک شہری نے درخواست دی کہ درزی نے اس کا سوٹ وعدے کے مطابق نہیں دیا اور سلا ئی بھی ٹھیک نہیں تھی جس کی وجہ سے وہ اپنے ایک عزیز دوست کی شادی میں شریک نہ ہو سکا کنزیومرکورٹ نے درزی کے خلاف کاروائی کر دی، لیجئے صاحب اب کنزیومرکورٹ ہو یا کہ وفاقی محتسب کا ادارہ جس کے سربراہ اب اعجاز احمد قریشی جیسے انسان دوست ہیں آپ کی شکایات سننے اور آپ کو انصاف دلانے کے لئے مستعد و تیار ہیں، مان لیجئے کہ کل کی سنی سنائی آج حقیقت بن گئی ہے۔ ناصر کاظمی یاد آ گئے
 اتفقات ِ زمانہ بھی عجب ہیں ناصر 
 آج وہ دیکھ رہے ہیں جو سنا کرتے تھے