خبر آئی ہے کہ سری لنکا کی حکومت نے برطانیہ سے کچرے کے کئی کنٹینرزیہ کہہ کر واپس لندن بھجوادیئے ہیں کہ اپنا کوڑا کرکٹ خود سنبھالو۔ہمارے پاس تمہارا کچرا ٹھکانے لگانے کی کوئی جگہ نہیں۔ برطانیہ سے آنے والے کچرے کے کنٹینرز میں استعمال شدہ میٹرس، کارپٹس،پرانے ملبوسات، ہسپتالوں کا فضلہ، مصنوعی انسانی اعضاء اور دیگر زہریلی اشیا ء شامل تھیں۔گزشتہ چند سالوں کے دوران برطانیہ سے مجموعی طور پر 263 کنٹینرز بھجوائے گئے تھے جن میں تین ہزار ٹن کچرا تھا۔ کچرے کی پہلی کھیپ ستمبر 2020ء میں 21 کنٹینرز کی صورت میں واپس بھجوائی گئی تھی، کچرے کی آخری کھیپ چند روز قبل 45 کنٹینرز کی صورت میں واپس بھجوائی گئی ہے۔بتایاجاتا ہے کہ یہ کوڑا سری لنکا کی ایک مقامی کمپنی نے امپورٹ کیا تھا، کمپنی کا کہنا تھا کہ ان کنٹینرز میں استعمال شدہ میٹرس ہیں جن سے وہ سپرنگ نکال کر ری سائیکل کرتے رہے ہیں۔ حالیہ سالوں کے دوران ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے ایشیائی ملکوں میں کچرا بھجوانے کے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں۔ رواں سال انڈونیشیا، ملائیشیا اور فلپائن نے بھی سینکڑوں کی تعداد میں بھجوائے گئے کچرے کے کنٹینر ان ملکوں کو واپس بھیجے تھے۔اب تک ہم یہ سمجھتے رہے کہ دولت مند ممالک کے لوگ اپنے اترن انسانی ہمدردی کی بنیاد پر غریب ملکوں کو تحفے کے طور پر دیتے ہیں۔اب پتہ چلا کہ پرانے کپڑوں کے ساتھ کوڑا کرکٹ بھی تلف کرنے کے لئے ہمیں بھیجاجارہا ہے۔ایسٹ انڈیاکمپنی کو دیوالیہ اور برصغیر کوبرطانوی راج سے نکلے سات عشروں سے زیادہ عرصہ گذرچکا ہے مگر انگریز آج بھی اپنی سابقہ نوآبادیات کو اپنا کچراکنڈی سمجھتے ہیں۔اس خطے کے لوگوں کو اپنا غلام بنائے رکھنے کے لئے جو قوانین انگریزوں نے وضع کئے تھے آج تک وہ تبدیل نہیں کئے گئے‘1901میں انگریز نے فرنٹیئرکرائمز ریگولیشن کے نام سے جو قانون بنایاتھا۔ وہ 2020ء تک ہمارے ہاں رائج رہا ہے۔سری لنکا، انڈونیشیا اور ملائشیا والوں نے انگریزوں کا کچرا انہیں واپس بھیج کر ہمیں بھی حوصلہ دیا ہے۔ہمیں بھی انگریزوں سے کہنا پڑے گا‘ اپنے تمام کچرے واپس لے لو۔یہ بات طے ہے کہ جب ہمیں آزادی ملے گی تو ولایت جانے کی خواہش نہیں رہے گی۔