محتسب کاادارہ

کوئی اکیس برس قبل کی با ت ہے ہمارے گھر کے باہر نصب بجلی کامیٹر راتوں رات تبدیل کیاگیا اس حوالہ سے نہ تو ہمیں بتایاگیانہ ہی اجازت لی گئی اگلے ماہ جب بجلی کابل اچانک بیالیس ہزار روپے آیاتو فکر دامن گیر ہوئی چھان پھٹک پر معلوم ہواکہ میٹر تبدیل شدہ ہے اورجو میٹر نصب کیاگیاہے اس میں کہیں پرانے بقایاجات چل رہے تھے اس پر واپڈ اکے مقامی دفتر سے رجوع کیا توا نہوں نے پہلے تو میٹر تبدیلی کے عمل سے ہی انکار کیا جب ان کو میٹر کے نمبر دکھائے گئے تو پھر حسب عادت آئیں بائیں شائیں کرنے لگے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ 2001ء میں بیالیس ہزار کتنی بڑی رقم تھی اس معاملہ پر پھر ہم نے بھی بھرپو ر قانونی جدوجہد کا آغاز کیا اس مرحلہ پر پہلے تو الیکٹرک انسپکٹر کے پاس گئے جن کی طرف سے پوری تحقیق کے بعد فیصلہ ہمارے حق میں آیا مگر واپڈا والے بھلا ایسے فیصلوں کو کب خاطر میں لاتے ہیں چنانچہ انہوں نے اس فیصلے کو ردی کی ٹوکر ی کی نذر کردیا اسی دوران صوبائی سیکرٹری کے پاس اپیل بھی چلتی رہی تاہم جب غور کیا توپتہ چلا کہ اس قسم کی ناانصافی کے خلاف سب سے مؤثر فور م تووفاقی محتسب کاہے چنانچہ ایک سادہ کاغذ پر درخواست لکھی اور پشاور میں محتسب کے دفتر میں جمع کرادی اگلی پیشی پرواپڈا کے متعلقہ اہلکاروں کے ساتھ ہم بھی محتسب کے نمائند ے کے سامنے بیٹھے تھے نہ کوئی وکیل نہ کوئی فیس نہ کوئی لمبی تاریخ نہ ہی سرکاری دفاتر کی طرف سے لیت ولعل کے مظاہرے دو تاریخیں گذر گئیں بوجوہ اگلی دو تاریخوں کاہمیں علم نہ ہوسکا جس کے بعد اچانک فیصلہ ہمارے خلاف آگیا اب سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کیاجائے پتہ چلا کہ محتسب کے فیصلوں کے خلاف صرف صدر مملکت کے پاس ہی اپیل کی جاسکتی ہے اپیل کی گئی جہاں سے محتسب کو کہاگیاکہ کیس دوبارہ سنا جائے اورپھر چند ہفتے میں ہی ہمارے حق میں فیصلہ ہوگیا یوں جوکام اس وقت کے چیئرمین واپڈا اور چیف ایگزیکٹو پیسکو کرنے میں ناکام رہے تھے وہ بغیر کوئی پیسہ خرچ کئے وفاقی محتسب کی طرف سے ہوگیا اور تب ہمیں پتہ چلا کہ واقعی ملک میں کوئی ادارہ تو ایسا ہے جہاں سے عام لوگوں کو فوری اور سستاترین انصاف اب بھی مل رہاہے کوئی چارعشرے قبل اس ادارے کی داغ بیل ڈالی گئی تھی تو اس کے ذمہ وفاقی اداروں کے حوالہ سے عوامی شکایات کافوری ازالہ تھا کیونکہ عام طورپر سرکاری اداروں کی زیادتی کی تلافی کے لئے طویل قانونی لڑائی لڑناہر کسی کے بس کی بات نہیں تھی بلکہ اب بھی نہیں ہے رفتہ رفتہ اس ادارے کی کارکردگی نکھرتی چلی گئی تاہم گذشتہ چند برسوں سے کافی بہتری دیکھنے میں آئی ہے شکایات نمٹانے کاعمل سست روی کی نذر ہونے سے بچانے کی حکمت عملی کامیاب رہی ہے اسی لئے تو شکایات کے اندراج کی شرح بھی بڑھ گئی ہے وفاقی محتسب کاادارہ 1983ء سے کام کر رہا ہے جہاں وکیل کی ضرورت ہے نہ فیس کی، نہ کسی نوعیت کے اخراجات کی۔ شکایت کنندہ صرف سادہ کاغذ پر بذریعہ ڈاک یا آن لائن درخواست دے سکتا ہے جس پر 24 گھنٹوں کے اندر کاروائی شروع ہو جاتی ہے اور زیادہ سے زیادہ 60 دن کے اندر فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔ یہ ادارہ وفاقی حکومت اور اس کے ذیلی اداروں کی بدانتظامی، نااہلی اور کاہلی کے سبب عام افراد سے ہونے والی نا انصافیوں کے خلاف شکایات کا ازالہ کرتا ہے۔اہم نوعیت کے فوجداری اور دیوانی مقدمات کے ساتھ ساتھ ہر ملک میں عام آدمی کو اپنے حقوق کے حصول اور سرکاری اداروں کے خلاف شکایات کے ازالے کے لئے عدالتوں میں کثیر سرمایہ اور وقت صرف کرنے کے باوجود آسانی سے انصاف نہیں ملتا۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے دنیا کے کئی ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے وفاقی محتسب کا ادارہ قائم کیا گیا جو آج بھی انتہائی مؤثرانداز میں اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں مصروف ہے اگرجائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس وقت جن گنے چنے سرکاری اداروں پر لوگوں کااعتماد پوری طرح سے برقرارہے ا ن میں وفاقی محتسب کاادارہ سر فہرست ہے اور اس سے بھی بڑھ کرخوش آئند امر یہ ہے کہ اس وقت سابق چیف سیکرٹری اعجاز قریشی اس ادارے کی سربراہی کررہے ہیں اعجاز قریشی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اس صوبہ میں کسی بھی جمہور ی دور میں سب سے طویل عرصہ تک چیف سیکرٹری کے منصب پرفائز رہے ہیں اپنے دور میں انہوں نے ہمیشہ میڈیا کے ساتھ قریبی رابطہ رکھا اور آج بھی اس امر کافخریہ انداز میں ذکر کرتے ہیں کہ میں واحد چیف سیکرٹری ہوں جس کی سبکدوشی پر پشاور پریس کلب نے الوداعی تقریب کاانعقاد کیاتھا وفاقی محتسب کی حیثیت سے فرائض سنبھالنے کے فوراًبعد انہوں نے گذشتہ دنوں جب پشاور کادورہ کیا تویہاں سینئر صحافیوں اور کالم نگاروں کے ساتھ ایک تفصیلی نشست کااہتمام بھی کیا اس موقع پر کھل کر گفتگو ہوئی ان کاکہناتھاکہ لوگوں کامحتسب پر اعتمادبڑھتاجارہاہے سالانہ شکایات بیس ہزار سے بڑھ کر ایک لاکھ دس ہزارتک پہنچ چکی ہیں انہوں نے  اس امر پر اطمینان کااظہار کیاکہ محتسب کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے ساتھ ہی فیصلوں پر عملدر آمد کیلئے مؤثر میکنزم موجود ہے عملد رآمد نہ ہونے کے حوالے سے ریجنل دفاتر میں سیکشن قائم ہیں جہاں شکایا ت کااندراج کیا جا سکتاہے ہمارے لئے یہ بھی کسی انکشاف سے کم ہرگزنہ تھاکہ قبل ازیں محتسب کے فیصلوں کے خلاف اپیل صرف صدر مملکت کے پاس ہی کی جاسکتی تھی اب اپیل کافور م بھی ادارے کے  پاس ہی موجودہے اگر کوئی صارف فیصلے سے مطمئن نہ ہو تو متعلقہ فور م سے رجوع کرسکتاہے ملاقات کے دوران اس امر پر اتفاق پایا گیاکہ میڈیا کے ساتھ قریبی رابطے جاری رکھے جائیں گے تاکہ محتسب کے ادارے کے حوالہ سے آگہی میں اضافہ کیاجاسکے ان کے مطابق بدلتے دور کے تقاضوں کے مطابق شکایات کنندگان کے لئے زیادہ سے زیادہ آسانیاں لائی جارہی ہیں اب ایپ کے ذریعہ بھی شکایات کااندراج کیاجاسکتاہے کورونا وبا ء کے دوران سارا کام سوشل میڈیا کے ذریعہ چلایا گیا مستقبل میں بھی سوشل میڈیا کو اہمیت دی جائے گی جبکہ ادارے میں مزید بہتری کے لئے تجاویزکاخیرمقدم کیاجائے گا۔اعجاز قریشی ہمیشہ کلام سے زیادہ کام پریقین رکھتے رہے ہیں اسی لئے اس ابتدائی نشست کے موقع پرہی بعض نکات نو ٹ کرکے کہنے لگے کہ اسلام آباد پہنچ کر اس حوالہ سے جلد کام شروع کردیاجائے گا جیساکہ بتایاگیا کہ اس وقت وفاقی محتسب کاادارہ ان سرکاری اداروں کی فہرست میں سب سے اوپر ہے جس پر لوگوں کااعتماد بہت زیادہ حد تک بحال وبرقرارہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت بھی بہت کم لوگوں کو اس ادارے کی بابت علم ہے‘بہت سے غریب اور مجبور لوگ وفاقی سرکاری اداروں کی ناانصافیوں کی تلافی کے لئے کسی فور م کی تلاش میں رہتے ہیں ان کو علم ہی نہیں کہ وفاقی محتسب کی صورت میں ایک ایسا طاقتور ادارہ موجودہے جس کے تحت وفاقی حکومت کے کم وبیش200محکمے اورادارے موجود ہیں جن کی ناانصافیوں کے خلاف فوری اور مفت انصاف کی فراہمی کاسلسلہ بغیر کسی رکاوٹ کے جاری ہے ان لوگوں تک پیغام پہنچانایقینا ایک بڑا چیلنج ہے جو میڈیا کی مدد سے ہی پورا کیاجاسکتاہے۔