پشاور کہانی: …… کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے!

صوبائی دارالحکومت پشاور کی 92 میں سے 43 یونین کونسلوں میں پینے کے پانی کی فراہمی‘ نکاسیئ آب اور کوڑا کرکٹ تلف کرنے سے متعلقہ امور کی ذمہ داری ”واٹر اینڈ سینٹی ٹیشن سروسز پشاور (WSSP)“ نامی حکومتی خودمختار ادارے کی ذمہ داری ہے جس نے مذکورہ تعداد میں یونین کونسلوں کو چار حصوں (زونز) میں تقسیم کر رکھا ہے۔ زون اے اور زون بی میں اندرون و بیرون شہر جبکہ زون سی اور ڈی میں حیات آباد‘ یونیورسٹی ٹاؤن اور تہکال کے علاقے شامل ہیں۔ قصہ یہ ہے کہ ایک سال (دوہزاراکیس) کے دوران پشاور کے مختلف حصوں سے 4 ہزار 400 گٹروں کے ڈھکن چوری ہوئے ہیں اور چوری کی یہ وارداتیں زیادہ تر ’زون بی‘ کے علاقے میں ہوئی ہیں جہاں سے 4401 ڈھکن چوری ہوئے ہیں جبکہ زون سی سے 50 مین ہول ڈھکن چوری یا ناکارہ ہوئے۔ چوری کی چند وارداتیں کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمروں کے ذریعے محفوظ بھی ہوئی ہیں‘ جیسا کہ گل بہار کے علاقے میں علی الصبح (رات) تین بجے ایک گٹر کا ڈھکن چوری کرنے والا چور گاڑی میں آیا اور ایک ایسے وقت میں جبکہ شہر سو رہا ہوتا ہے نہایت اطمینان سے ڈھکن چوری کرکے چلتا بنا۔ لمحہ فکریہ ہے کہ پشاور سے لوہے اور سیمنٹ (کنکریٹ) کے بنے ہوئے 20 مین ہول ڈھکن اوسطاً یومیہ چوری ہوتے ہیں! اِس طرح زون اے اور زون سی سے مجموعی طور پر 50 لاکھ روپے کے مین ہول ڈھکن چوری ہوئے ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ آخر گٹر کے ڈھکن چوری کیوں ہوتے ہیں؟ چوری شدہ ڈھکن کون خریدتا ہے‘اِس مسئلے کا کوئی مستقل حل تلاش نہیں کیا جاتا کہ ڈھکن چوری کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ قابل ذکر ہے کہ ”ڈبلیو ایس ایس پی‘‘کی جانب سے آہنی ڈھکن کی جگہ سیمنٹ (کنکریٹ) سے بنے ہوئے ڈھکن متعارف کروائے گئے لیکن یہ حربہ کارگر ثابت نہ ہواڈبلیو ایس ایس پی کے اثاثے اور ترقیاتی حکمت عملیاں درحقیقت پشاور ہی کا اثاثہ ہیں اور یوں اگر ہر دن قریب دو درجن گٹر ڈھکن چوری ہو رہے ہیں اور یہ عمل سارا سال جاری رہتا ہے لیکن چوروں کا سراغ نہیں لگ رہا۔اِس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ”ڈبلیو ایس ایس پی‘‘کا قیام جنوری 2014ء میں عمل میں لایاگیا تھا اور اِس کا بنیادی مقصد کسی ایک ادارے کو شہری سہولیات کی فراہمی کے لئے ذمہ دار ٹھہرانا تھا لیکن خلاصہئ کلام یہ ہے کہ یہ تجربہ انتہائی بُری طرح ناکام ہوا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ڈبلیو ایس ایس پی کو پشاور کی تمام (بانوے) یونین کونسلوں تک پھیلانے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن یہ وعدہ بھی پورا نہیں ہوا اور تیسری بات یہ ہے کہ جن علاقوں میں ”ڈبلیو ایس ایس پی‘‘فعال ہے کیا وہاں کے صارفین کی اکثریت اِس کی کارکردگی سے مطمئن ہے؟ ڈبلیو ایس ایس پی سے قبل بھی پشاور میں پانی کی فراہمی‘ نکاسیئ آب‘ صفائی‘ کوڑا کرکٹ اکٹھا کرنے اور اِسے تلف کرنے جیسی خدمات فراہم کی جاتی تھیں۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب پورا پشاور ایک میونسپل ادارے کی زیرنگرانی تھا اور یونین کونسلوں (وارڈوں) میں تقسیم شہر کے ہر حصے میں بنیادی سہولیات کسی نہ کسی تناسب سے فراہم ہو رہی تھیں۔ بہتر یہی ہوتا کہ اُس نظام کو افرادی اور تکنیکی وسائل کی فراہمی سے تقویت دی جاتی کیونکہ میونسپلٹی نظام میں انتظامی اخراجات نسبتاً کم تھے۔ بعد میں دیہی اور مضافاتی علاقوں کو پشاور شہر کا حصہ بنا دیا جبکہ پشاور کی آمدنی کے وسائل کو ترقی نہیں دی گئی۔ اندرون شہر میں بنیادی سہولیات جن مالی وسائل سے فراہم کی جاتی تھیں وہ قریب ڈیڑھ درجن یونین کونسلوں سے بڑھ کر بانوے یونین کونسلوں میں تقسیم کر دیئے گئے اور نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ نصف سے زیادہ یونین کونسلیں بنیادی سہولیات سے محروم ہیں جبکہ دیگر یونین کونسلوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی پر جو انتظامی اخراجات (لاگت) آتی ہے وہ مختلف وجوہات بشمول چوری اور ناقص المعیار سازوسامان کی خریداری کی وجہ سے نقصان در نقصان ہے۔ المیہ ہے کہ پشاور کی حدود میں ہر جگہ ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ کی کسی نہ کسی صورت موجودگی دکھائی دیتی ہے لیکن اِس کی خدمات کا دائرہ تشہیر کی طرح وسیع نہیں! کیا نام کی بجائے کام (خدمات) اِس قدر بہتر بنانے پر توجہ دی جائے گی کہ …… ”آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہو؟“