خوبصورتی اور امیون سسٹم کا باہمی تعلق

امریکی سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ ظاہری طور پر خوبصورت اور پرکشش نظر آنے والے لوگوں میں بیماریوں سے بچانے والا قدرتی نظام (امیون سسٹم)بھی مضبوط ہوتا ہے۔ٹیکساس کرسچن یونیورسٹی میں 159 رضاکار طالب علموں کی مدد سے کی گئی تحقیق سے معلوم ہوا کہ جن چہروں کو لوگوں کی اکثریت نے خوبصورت اور پرکشش قرار دیا تھا، ان رضاکاروں کا امیون سسٹم بھی دوسروں سے زیادہ بہتر نکلا۔اس تحقیق سے خوبصورت چہروں اور مضبوط امیون سسٹم کے مابین واضح تعلق سامنے آیا ہے۔یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ امیون سسٹم صرف فطری حسن رکھنے والوں کا مضبوط ہوتا ہے مصنوعی طریقے اور سولہ سنگھار کے ذریعے خوبصورت نظر آنے والوں نے اصلی چہرے پر نقلی چہرہ سجایاہوتا ہے ان کا امیون سسٹم دیگرعام لوگوں کی نسبت کمزور ہوتا ہے انہیں ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ ان کا پول کہیں کھل نہ جائے۔ خوبصورت اور پرکشش نظر آنا ہر ذی ہوش مرد و زن کی دلی خواہش ہوتی ہے اس فطری خواہش کے پس پردہ بہت سے مقاصد ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے اندرونی خلفشار کو چھپانے کے لئے ہونٹوں پر مصنوعی مسکراہٹ سجاکر دلکش دکھائی دینے کی کوشش کرتے ہیں۔دنیا والے انسان کی داخلی خصوصیات میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ وہ ظاہری صورت کو دیکھ کر اس کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں۔  ورنہ کسی کو کیا پڑی ہے اپنا سراپا بدلنے کی کہ جن کے بارے میں پھر شاعر کہے کہ”ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔ دھوکہ دیتے ہیں یہ بازی گر کھلا“۔ یہاں ایک نئی الجھن پیدا ہوگئی ہے۔انسان خود کو سجاتا سنوارتا اس لئے ہے کہ کوئی اس کی تعریف کرے‘ اس کا ایک پہلو یہ بھی نکلتا ہے کہ بعض صورتوں میں تعریف بھی منفی کھاتے میں آسکتی ہے جو قابل دست اندازی پولیس جرم ہے۔یعنی اب کسی کی تعریف کرتے ہوئے بھی سو مرتبہ سوچنا پڑتا ہے کہ اس کے تادیبی اثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔ کوئی بھی اس وسوسے کا شکار ضرور ہو سکتا ہے کہ اگر کہ اگر کوئی پکڑے جانے کے خوف سے کسی تعریف ہی نہ کرے تو خوبصورت نظر آنے کی جتن کوئی کیوں کرے کیونکہ ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ خوبصورت نظر آئے اور لوگوں کی توجہ کا مرکز ہو ایسے میں اگر تعریف پر پابندی لگ جائے تو بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے۔