پی ایس ایل: سود و زیاں 

پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے نام سے ’کاروباری حکمت عملی‘ تشکیل دینا ’پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی)‘ کی تاریخ کا سب سے ’اچھا فیصلہ (اقدام)‘ قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیگ ہر سال کرکٹ کے منتظم قومی ادارے کے لئے آمدنی کا پائیدار ذریعہ ہے جبکہ اِس نے کرکٹ کے عالمی مقابلوں کے دروازے بھی پاکستان پر دوبارہ کھول دیئے ہیں۔ لیگ کا یہ پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ اِس کے ذریعے کرکٹ بورڈ بین الاقوامی نشریاتی اداروں کے ساتھ معاہدے کر رہا ہے جو اضافی آمدنی کا باعث ہیں۔ لیگ جہاں ’پی سی بی‘ کے لئے اچھا کاروباری فیصلہ ثابت ہوا ہے وہیں ٹیمیں خریدنے والے کچھ اداروں کے مالکان (فرنچائزز) کے لئے یہ سودمند تجربہ (اچھا کاروباری فیصلہ) ثابت نہیں ہوا۔ اگر لیگ کے گزشتہ چھ برس کی کاروباری کارکردگی کو دیکھا جائے تو تمام ٹیم مالکان سے غیرمعمولی ”فرنچائز فیسیں“ وصول کرنے کے علاوہ ٹورنامنٹ کے ہر ایڈیشن سے کچھ نہ کچھ منافع کمایا جبکہ صرف ایک یا دو ٹیمیں ایسی رہیں جن کی آمدن و اخراجات برابر (بریک ایون) رہے اور دیگر کو مسلسل نقصانات کا سامنا رہا۔ لیگ کے نقصانات سے پریشان‘ فرنچائزز برسوں سے نوحہ کناں ہیں اور لیگ کی آمدنی تقسیم کرنے کے طریقہئ کار (ریونیو شیئرنگ فارمولے) کو غیر منصفانہ قرار دیتی رہی ہیں جسے بالآخر رواں برس ساتویں سیزن میں تبدیل کیا گیا ہے اور آمدنی کے نئے ماڈل کے تحت‘ ٹیموں کو ٹورنامنٹ کے منافع کا پچانوے فیصد حصہ ملے گا جبکہ باقی پانچ فیصد کرکٹ بورڈ لے گا۔ گزشتہ چھ سالوں میں یہ ماڈل بیس اِسی کا تھا‘ جس میں کرکٹ بورڈ کی حصہ داری بیس فیصد تھی لیکن بہت سی ٹیموں کو ہوئے نقصانات کے پیش نظر ’پی سی بی‘ کا منافع اِس حد تک کم کردیا گیا ہے کہ اب اِس سے کم خوشگوار حیرت ہی ہو سکتی ہے! پی ایس ایل کے فرنچائز مالکان اگرچہ نقصان کا دعویٰ کرتے رہے ہیں لیکن اِن میں سے کوئی بھی اپنی ٹیموں سے دستبردار نہیں ہوا اور اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ’پی ایس ایل‘ کے ذریعے فرنچائز مالکان کو شخصی طور پر مشہوری کی صورت بھی فائدہ ملا ہے اور آج اِن شخصیات کو ایک ایسا اضافی تعارف ملا ہے جس سے یہ گھر گھر کا نام بن گئے ہیں جیسا کہ جاوید آفریدی‘ فواد رانا اور سلمان اقبال وغیرہ کرکٹ شائقین کیلئے اجنبی نہیں رہے جیسا کہ لیگ کے آغاز سے قبل تھا۔ علاوہ ازیں لیگ کے ذریعے یہ فرنچائز مالکان اپنے کاروباری اداروں کے برانڈ ایمبسڈرز بن کر بھی فائدہ اُٹھا رہے ہیں لیکن ہر اچھے کاروباری شخص کی طرح یہ مسلسل نقصان کاکہتے رہتے ہیں اور اِن کے رونے دھونے کی وجہ سے کرکٹ بورڈ نے اپنا منافع پندرہ فیصد کم کر دیا ہے۔’لیگ‘ کی آمدنی کے تین بنیادی ذرائع میں نمائشی ٹکٹ‘ مختلف اداروں کے اشتہارات آویزاں کرنے اور نشریاتی حقوق کی فروخت شامل ہیں۔ رواں برس (سیزن سیون) کیلئے کرکٹ بورڈ نے نشریاتی حقوق ’اے آر وائے سپورٹس‘ اور ’پی ٹی وی سپورٹس‘ کو 2 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کے عوض عرصہ 2 سال کے لئے فروخت کئے۔ اِس کے علاوہ حبیب بینک کو سال دوہزارپچیس تک ’ٹائٹل سپانسر‘ 2 کروڑ 25 لاکھ ڈالر کے عوض فروخت کیا گیا۔ اِن دو ذرائع کے علاوہ درجنوں کی تعداد میں دیگر ادارے بھی ہیں جنہوں نے کرکٹ گراؤنڈ کے اندر اور نشریات کے دوران اشتہارات نشر کروانے کیلئے ادائیگیاں کی ہیں لیکن اِس حوالے سے کرکٹ بورڈ نے اعدادوشمار جاری نہیں کئے ہیں البتہ سال دوہزاربیس میں نمائشی ٹکٹوں کی فروخت سے کرکٹ بورڈ کو بیس لاکھ ڈالر وصول ہوئے تھے لیکن اِس کے بعد سے کورونا وبا کے باعث ٹکٹوں کی فروخت سے آمدنی نہ ہونے کے برابر ہے تاہم اِس حوالے سے بھی اعدادوشمار جاری نہیں کئے گئے ہیں۔ پاکستان سپر لیگ کا آغاز سال دوہزارپندرہ میں ہوا تھا جب 5 ٹیموں کی نمائندگی (فرنچائزز) عرصہ 10 برس کے لئے 9 کروڑ 30 لاکھ ڈالر (93ملین ڈالر) کے عوض فروخت کی گئی تھیں۔ اِن میں بذریعہ بولی خریدی گئی سب سے مہنگی ٹیم کراچی کنگز کی تھی جسے 2 کروڑ 60لاکھ ڈالر کے عوض خریدا گیا تھا۔ دوسرے نمبر پر مہنگی ترین ٹیم لاہور قلندرز کی تھی جسے 2 کروڑ 50 لاکھ ڈالر‘ تیسری مہنگی ترین ٹیم پشاور زلمی ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر‘ اسلام آباد یونائٹیڈ ڈیڑھ کروڑ ڈالر اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز ایک کروڑ دس لاکھ ڈالر کے عوض خریدی گئی چونکہ مذکورہ پانچ ٹیمیں عرصہ 10 سال کیلئے خریدی (حاصل) کی گئی ہیں اِس لئے ٹیموں کی قیمت دس سال میں اقساط کی صورت ادا کرنا ہوتی ہیں۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ کرکٹ بورڈ کو فرنچائز کی قیمت ادائیگی کرنے کے علاؤہ ٹیموں کے مالکان کو کھلاڑیوں کو ادائیگیاں‘ سازوسامان اور اُن کے قیام و طعام کے جملہ اخراجات بھی خود برداشت کرنا ہوتے ہیں۔ کورونا وبا اور اُس سے قبل سیکورٹی کی وجہ سے لیگ کے جتنے مقابلے متحدہ عرب امارات میں ہوئے اُن کے اخراجات کی وجہ سے فرنچائزیز نے نقصانات کا نکتہ اُٹھایا تھا اور کئی فرنچائزیز نے سالانہ بنیادی قیمت بھی ادا نہیں کی۔ اوسطاً ہر سال کرکٹ بورڈ کو 6 لاکھ ڈالر آمدنی ہوتی ہے جبکہ ہر سال کا اوسط منافع چھبیس لاکھ ڈالر رہا جو ابتدائی پانچ ٹیموں میں برابر یعنی چار لاکھ ڈالر کے حساب سے تقسیم کیا گیا۔ یوں لیگ کے ابتدائی برس خسارے کے تھے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ لیگ کے پہلے برس میں صرف کراچی کنگز نے اپنی سالانہ فرنچائز فیس (چھبیس لاکھ ڈالر) ادا کئے تھے اور یہ رقم پہلے سیزن کی کل آمدنی کے مساوی رقم تھی۔ فرنچائزیز کے نکتہئ نظر سے دیکھا جائے تو اِن کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ فرنچائز فیس ڈالروں کی بجائے پاکستانی روپے میں لی جائے کیونکہ ڈالر کا شرح تبادلہ روپے کے مقابلے مسلسل بڑھ رہا ہے۔ پی ایس ایل کی ابتدائی پانچ ٹیموں میں چھٹی ٹیم (ملتان سلطانز) کا اضافہ ساڑھے تریسٹھ ڈالر سالانہ کے عوض عرصہ سات برس کیلئے کیا گیا ہے اور اگر فرنچائزز کی جانب سے نقصانات کے دعوؤں کو دیکھا جائے تو کہا جاتا ہے کہ ابتدائی 2 سیزنز میں فرنچائزز نے چودہ لاکھ سے پچاس لاکھ ڈالر تک نقصان کیا اور اُن کا مطالبہ رہا ہے کہ لیگ سے حاصل ہونے والی آمدنی پر ٹیکس معاف کیا جائے۔ شک و شبے سے بالاتر ہے کہ ’پاکستان سپر لیگ‘ کی وجہ سے نہ صرف کرکٹ کے قومی و عالمی افق پر پاکستان کے کھلاڑیوں کی اہلیت اُبھر کر سامنے آئی ہے بلکہ اِس سے عالمی کرکٹ کی دوبارہ واپسی کی راہیں بھی کھل گئی ہیں۔