پاکستان کی درآمدات میں غیرمعمولی رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے جبکہ ضرورت درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافے کی ہے لیکن برآمدات جہاں ہیں اور جیسی ہیں کی حالت میں رکی ہوئی ہیں اور اُن اشیاء کی برآمدات مسلسل ہو رہی ہیں جو پاکستان میں تیار نہیں ہوتیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانیوں کی ایک تعداد ایسی بھی ہے جو ملکی (مقامی طور پر) تیار ہونے والی اشیا کے مقابلے بیرون ملک تیار ہونے والی اشیا کو زیادہ موزوں (معیاری) سمجھتے ہیں حالانکہ یہ حقیقت سوفیصد درست نہیں اور بھلے ہی پاکستان کی مصنوعات نمائشی خصوصیات سے پاک ہوں لیکن اِن کے استعمال سے کم و بیش ایک جیسے ہی نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں اور پائیداری کے لحاظ (نکتہئ نظر) سے بھی پاکستان میں بنی ہوئی اشیا (میڈ اِن پاکستان) زیادہ موزوں ہوتی ہیں کیونکہ کے فاضل پرزہ جات اور مرمت یا دیکھ بھال وغیرہ نسبتاً کم قیمت (لاگت) میں ہو سکتی ہے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ درآمدات میں انحصار کم کرنے کے لئے حکومت زور تو دیتی ہے لیکن پاکستان میں بننے والی اشیا کے معیار (اِن کی پائیداری) پر توجہ نہیں دیتی اور نہ ہی پاکستان میں صنعتیں لگانے کو اِس قدر باسہولت اور منافع بخش بنایا گیا ہے کہ لوگ بینک کھاتوں (اکاؤنٹس) یا جمع خانوں (لاکرز) میں پیسہ پوشیدہ رکھنے کی بجائے اِس کی سرمایہ کاری کریں جس سے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں اور پاکستان کی مقامی ضروریات کے لئے اشیا کی تیاری بھی ممکن ہو سکے۔ ایک طرف آبادی اور اِس آبادی کی ضروریات بڑھ رہی ہیں اور دوسری طرف موجود صنعتوں کی پیداواری صلاحیت تیل و گیس کی قیمتوں اور بجلی بحران کی وجہ سے یا تو ایک ہی جگہ کھڑی ہے یا پھر اِس میں ہر سال طلب میں اضافے کی وجہ سے کمی ہو رہی ہے۔ ایسی صورت میں یہ ”خواب“ دیکھنا کہ کسی صبح جاگنے پر پوری قوم صرف پاکستانی مصنوعات کا استعمال شروع کر دے گی خود فریبی ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا بھی ہے تو پاکستان میں بنی ہوئی مصنوعات اِس قدر نہیں کہ یہ ملکی ضروریات کو پوری کر سکیں۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ ایک وقت تک سنتے آئے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن اب زرعی اجناس بھی درآمد کی جا رہی ہیں اور اگر حکومت آلو‘ پیاز‘ لہسن‘ گندم‘ مختلف دالیں‘ کوکنگ آئل وغیرہ درآمد نہ کرے تو ملک میں غذائی اجناس کا بحران بھی پیدا ہو جائے تو یہ موقع اِس بات پر ”غور و فکر“ کرنے کا ہے کہ ہمارے قومی فیصلہ ساز ملک کو کس سمت میں لے جا رہے ہیں؟ کیا قرضوں پر منحصر معیشت ہی پاکستان کا مستقبل رہے گی؟ کیا پاکستان کبھی بھی قرضوں کے چنگل سے نہیں نکل پائے گا؟ کیا پاکستان کبھی بھی خودکفالت کی منزل پا لے گا؟پاکستان کے معاشی و اِقتصادی فیصلوں اور اِن سے متعلق قومی ترجیحات میں خامیوں (کمی بیشی) کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف درآمدات و برآمدات میں عدم توازن سے پیدا ہونے والا تجارتی خسارہ ہی باعث تشویش نہیں اور ملک کو قرضوں کی دلدل میں نہیں دھکیل رہا بلکہ اِس کے علاوہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ارسال کی جانے والی رقومات (ترسیلات زر) میں بھی غیرمعمولی کمی آئی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ کورونا وبا کی وجہ سے آنے والے عالمی معاشی بحران کی وجہ سے بیرون ملک مقیم پاکستانی ماضی کی نسبت کم ترسیلات ِزر کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ درآمدات میں اضافہ اور ترسیلات زر میں کمی کی وجہ سے مجموعی قومی تجارتی خسارہ ہر ماہ اوسطاً 2.5 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے اور اگر برآمدات و ترسیلات زر کی وصولی میں اضافہ نہیں ہوتا تو تجارتی خسارے کی ادائیگی کیلئے مزید قرض لینا پڑے گا اور اِس بات سے بھی فرق نہیں پڑے گا کہ وفاق میں کس سیاسی جماعت کی حکومت ہے اور کون قومی فیصلے کر رہا ہے۔