خارجہ پالیسی میں اہم تبدیلی

روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کی دعوت پر وزیراعظم پاکستان عمران خان کا ماسکو کا دورہ عالمی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ دونوں ملکوں کے سربراہان حکومت کی ملاقات کا دورانیہ ایک گھنٹے سے بڑھا کر تین گھنٹے کردیاگیا۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے عمران خان اور پیوٹن کی ملاقات کے دوران میز کے سائز کو بھی دونوں ملکوں کے درمیان قربت سے تعبیر کیا ہے۔

ملاقات میں پاک روس دوطرفہ تعاون کے اہم پہلوؤں پر تبادلہ خیال کیا موجودہ علاقائی موضوعات،یوکرین تنازعے،جنوبی ایشیا کی صورتحال اور مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر بھی گفتگو ہوئی۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان معاونین کے بغیر طویل ون آن ون ملاقات کو سفارتی حلقے غیر معمولی اہمیت دے رہے ہیں۔

افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء اور پاک امریکہ تعلقات میں سرد مہری کے بعد پاکستان کا روس کی طرف جھکاؤ سرمایہ دارانہ بلاک سے نکلنے کا اشارہ قرار دیا جارہا ہے۔خارجہ پالیسی کے تناظر میں پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات کا جائزہ لیں تو یہ حقائق سامنے آتے ہیں کہ امریکی بلاک میں شامل ہونے کا ہمیں نقصان ہی اٹھانا پڑا ہے۔قیام پاکستان کے چار سال بعد 1951میں ملک کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کو امریکہ اور سوویت یونین کی طرف سے دورے کی دعوت دی گئی تھی پاکستان کی طرف سے دعوت ٹھکرائے جانے کا بھارت نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور سوویت یونین کے ساتھ تعلقات استوار کرلئے۔ پاکستان پر جب بھی مشکل وقت آیاہمارے دوست امریکہ نے ہم سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا۔ اور ہمیں بیج منجدھار ڈوبنے کے لئے تنہاچھوڑ دیا۔ افغانستان میں سوویت افواج شکست کھا کرچلی گئیں تو امریکی عنایات کا سلسلہ بھی بند ہوگیا

۔ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا خمیازہ بم دھماکوں، دہشت گرد ی اور ڈرون حملوں کی صورت میں ہمیں بھگتنا پڑا۔اپنا مطلب نکلنے کے بعد امریکہ نے نہ صرف ہماری امداد بند کردی بلکہ غیر نیٹو اتحادی کا درجہ بھی واپس لے لیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ فی الوقت دنیا کی واحد سپر طاقت ہے اس کے ساتھ بنائے رکھنا پاکستان سمیت ہر ملک کی مجبوری ہے۔ہمیں اپنے قومی مفادات کو پیش نظر رکھ کر اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہئے۔ اور قومی مفادات کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے خطے کی بڑی فوجی اور معاشی طاقتوں کے ساتھ قریبی تعلقات رکھیں۔ سوویت یونین ٹوٹنے کے باوجود روس اس خطے کی بڑی فوجی اور معاشی طاقت ہے اس کے پاس تیل اور گیس کے وسیع ذخائر ہیں۔تعلیم، صحت، انجینئرنگ، سپیس ٹیکنالوجی، زراعت، سیاحت اور دیگر شعبوں میں روس کے ساتھ اشتراک عمل ہمارے لئے بہت فائدہ مند ہوسکتا ہے۔ 1970کے عشرے میں ذوالفقار علی بھٹو نے روس کے ساتھ پہلی بار دوستانہ تعلقات کی بنیاد رکھی تھی۔ جس کے صلے میں روس نے جنوبی ایشیاء کی سب سے بڑی سٹیل مل کا تحفہ ہمیں دیا تھا۔ توقع ہے کہ وزیراعظم کے حالیہ دورے کے بعد پاکستان اور روس کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون اور ترقی کی نئی راہیں کھل جائیں گی۔