برطانیہ میں برفانی طوفان نے سیب کاوہ تاریخی درخت جڑوں سے اکھاڑ دیا جس کاپھل گرنے سے مشہور سائنس دان نیوٹن نے زمین کی کشش ثقل کو دریافت کیاتھا۔کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ نیوٹن تھک ہار کر سیب کے درخت کے سائے میں سو گیا تھا۔اس دوران ہوا چلنے سے ایک پکا ہوا سیب نیوٹن کے اوپر آن گرا۔سیب کھاتے کھاتے نیوٹن سوچنے لگا کہ شاخ سے ٹوٹ کر سیب زمین کی طرف کیوں آتا ہے۔ اس سوچ بچار کے نتیجے میں انہوں نے یہ نظریہ قائم کیا کہ فضاء میں موجود بے سہارا چیزوں کو زمین کی کشش ثقل اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ اور وہ چیزین زمین کی سطح پر گرجاتی ہیں اور زمین کے اوپر متحرک چیزیں جب غیر متحرک ہوجائیں اور زمین پر بوجھ بن جائیں تو انہیں زمین اپنے اندر کھینچ لیتی ہے۔اس طرح کائنات پرغیر ضروری چیزوں کابوجھ کم ہوجاتا ہے۔اسی سے ملتا جلتا نظریہ مشہور سائنس دان تھامس رابرٹ مالتھس نے پیش کیا تھا مالتھس کا کہنا تھا کہ زمین انسانوں کا مخصوص مقدار میں بوجھ اٹھاسکتی ہے قوموں کے درمیان جنگیں چھڑ جاتی ہیں اور لاکھوں لوگ مارے جاتے ہیں کبھی مہلک وبائیں پھوٹتی ہیں اورلاکھوں کو لقمہ اجل بناتی ہیں کبھی زلزلے، طوفان اور سیلاب آتے ہیں اور انسانی آبادی میں کمی آتی ہے۔ چین اور مغرب والوں نے مالتھس کے اس نظریے کو سنجیدہ لیا اور وسائل میں اضافے پر توجہ مرکوز کئے رکھی اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کم زمین کے رقبے سے زیادہ پیداوار نچوڑنے کے تجربات بھی کامیابی سے ہمکنار کئے تاکہ جو زمین کشش ثقل کے باعث چیزوں کو اپنی طرف کھینچتی ہیں تو اسی زمین سے زیادہ سے زیادہ پیداوار اور اشیاء حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہ کی جائے۔ اصل بات نیوٹن کے سیب کی ہورہی تھی۔ انگریزوں کو معلوم تھا کہ سیب کے درخت کی عمرساٹھ ستر سال سے زیادہ نہیں ہوتی اس لئے انہوں نے نیوٹن والے درخت کی کلون کاپیاں بنائیں اور مختلف باغات میں لگادیئے تاکہ اس تاریخی درخت کی نشانیاں باقی رہیں۔اسی سیب کے درخت کی ایک کلون کاپی 1954میں کیمبرج یونیورسٹی کے باغیچے میں لگائی گئی تھی جو تناور درخت بن گیا تھا جوحالیہ طوفان بادوباراں کی وجہ سے جڑوں سے اکھڑ گیا۔باغیچے کے نگران ڈاکٹر سیموئیل کا کہنا ہے کہ نیوٹن والا درخت عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے ہنی فنگس نامی بیماری کا شکار ہوچکا تھا۔اسی وجہ سے پہلے ہی قلم کاری کے ذریعے اس درخت کی ایک کلون کاپی تیارکی گئی تاکہ نیوٹن والے سیب کا درخت ہمارے باغ میں ہمیشہ رونق افروز رہے۔انگریزوں کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ تاریخی چیزوں کو سنبھال کر رکھتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ اپنے والدین کو بڑھاپے میں اولڈ ہوم لے جاکر چھوڑ دیتے ہیں۔اور سالوں تک خبر بھی نہیں لیتے اکثر لوگ والدین کے آنجہانی ہونے کے بعد ان سے ملنے کے لئے وقت نکالتے ہیں۔ دیکھا جائے تو کشش ثقل معلوم کرانے میں اس سیب کا کوئی کمال نہیں تھا۔ اگر نیوٹن سیب کے درخت کے بجائے اخروٹ، آڑو، خوبانی، ناشپاتی، آم، آلوچے یا آلوبخارے کے درخت کے سائے میں بھی بیٹھا ہوتا۔ تو ہواچلنے سے یہ پھل بھی پک کر زمین پر گرتے۔کمال نیوٹن کی سوچ میں ہے جس نے سوچا کہ زمین کے مدار کے اندر کوئی بھی چیز ہوا میں اچھال دی جائے تو وہ واپس زمین پر آتی ہے۔اسی نظریے کی بنیاد پر سائنس دانوں نے یہ راز معلوم کیا کہ زمین کے مدار سے باہر نکلنے کے بعد کشش ثقل کا اثرختم ہوجاتا ہے اور ہوا میں اچھالی گئی چیز ہوا میں ہی معلق رہتی ہے اسی نظریے کو سامنے رکھ کر خلائی راکٹ اورسپیس سٹیشن بنائے گئے۔انسان نے چاند کی سطح پر قدم رکھا اب مریخ اور مشتری کی طرف محو سفر ہے۔ کیونکہ کہتے ہیں کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں اس لئے تو انسان ان دیکھی دنیاؤں کی تلاش میں اب کہکشاؤں کا رخ کرنے لگا ہے۔