شبیر حسین امام
پشاور شہر کی حدود میں ایسی تمام عمارتوں کو ”غیرقانونی“ قرار دینے کا اصولی فیصلہ کر لیاگیا ہے جو کہ پیشگی اجازت نامہ‘ نقشے کی منظوری اور تعمیراتی نقشے میں ترمیم کر کے یعنی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تعمیر کی گئیں ہیں۔ فیصلہ سازوں کے سامنے یہ بات بھی زیرغور ہے کہ ’غیرقانونی عمارتوں‘ پر فی مربع فٹ شرح سے جرمانے عائد کر کے اِنہیں ”قانونی دائرے“ میں لایا جائے گا اور اِس عمل کا نام ’ریگولرئزیشن‘ رکھا گیا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ تجاوزات اور غیرقانونی تعمیرات کے حوالے سے قواعد و ضوابط کی اہمیت و افادیت کیا رہ جاتی ہے جبکہ حکام اِن کے خلاف ”لچکدار مؤقف“ رکھتے ہیں۔ اِس مرحلہ فکر پر چند بنیادی سوالات (نکات) بھی یکساں لائق توجہ ہیں۔ 1: بنا تعمیراتی نقشہ منظور کئے رہائشی اور کاروباری (کمرشل) عمارتیں کس طرح تعمیر ہو سکتی ہیں جبکہ ایک سے زیادہ حکومتی اداروں کے درجنوں اہلکاروں کا بنیادی کام ہی ایسی بے قاعدگیوں پر نظر رکھنا ہے۔ 2: تعمیراتی نقشوں پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوتا جبکہ اِس نوعیت کی بے قاعدگیوں پر بھی نظر رکھنے کے لئے مستقل بنیادوں پر ایک سے زیادہ اداروں کے درجنوں اہلکار موجود ہیں۔ 3: تعمیراتی قواعد وضع کرنے کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے جبکہ اِن کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں دیکھنے میں آتی ہیں اور 4: اگر مذکورہ بے قاعدگیوں کو قانونی شکل دیتے ہوئے ”ریگولرئزڈ“ کر دیا جاتا ہے تو کیا اِس سے تجاوزات اُور تعمیراتی بے قاعدگیوں کی حوصلہ شکنی ہو گی یا اِن کی حوصلہ افزائی ہوگی؟ پشاور کو درپیش بڑھتے مسائل جو کہ بحرانی شکل اختیار کئے ہوئے ہیں ہمارے سامنے ہیں۔ اگرچہ پشاور کے بارے میں ’عوامی سطح پر‘ بحث و مباحثہ نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی ایسی سماجی یا غیرسرکاری تنظیم‘ ادارہ یا وسیلہ (پلیٹ فارم) میسر ہے کہ جہاں پشاور کے مسائل کو حقیقی معنوں میں زیرغور لایا جا سکے تو ایسی صورت میں اہل پشاور تماشائی بنے ہوئے ہیں‘ جن کی نکتہئ نظر‘ احتجاج و اختلاف اور نمائندگی کے جملہ تقاضے پورے نہیں ہو رہے۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ یہ ’بے ربط عمل تیزی سے جاری ہے۔ ایک ایسی صورت میں جبکہ ٹاؤن ون انتظامیہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی سے ایستادہ رہائشی و کمرشل تعمیرات کو غیرقانونی اور قانونی قرار دینے کی حکمت عملی پر بیک وقت کام کر رہی ہے تو کیا یہ مسئلہ پشاور کے کسی ایک حصے کا ہے یا ضلع پشاور کی عمومی و خصوصی صورتحال یہ ہے کہ یہاں شمار کی عمارتیں ہی 100فیصد قواعد و ضوابط کے مطابق تعمیر ہوئی ہوں گی۔ ضلعی اور ٹاؤن انتظامیہ اور پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے حکام اگرچہ الگ الگ حدود میں ایک جیسے قواعد کا اطلاق کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ قواعد کا اطلاق (عمل درآمد) کا دور دور تک نام و نشان دکھائی نہیں دیتا۔ پشاور کے طول و عرض میں ایسی کثیرالمنزلہ عمارتوں کا شمار ہونا چاہئے‘ جنہوں نے گاڑیوں کی پارکنگ اور ایمرجنسی انخلأ سے متعلق قواعد کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دی اور لمحہئ فکریہ تو یہ ہے کہ اِن عمارتوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے خصوصاً نئی رہائشی بستیاں شہری قواعد و ضوابط کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں کی تصویر ہیں۔ جنوب مشرق ایشیاء کے قدیم ترین اور زندہ تاریخی شہر کے سفر میں پشاور اُس موڑ پر کھڑا ہے جہاں اِس کی تاریخ ایک ایسے مقام پر آن کھڑی ہوئی ہے کہ جہاں سے آگے نہیں بڑھ رہی اور اب پشاور کے وسائل پر وقتی ضروریات حاوی ہیں جبکہ ہمارے فیصلہ ساز حکومتی ادارے مستقبل کی منصوبہ بندی تو بہت دور کی بات ماضی سے حال اور حال سے ماضی کے سفر میں اُلجھے ہوئے ہیں! ”اندیشہ ہائے روز مکافات اور میں …… اِس دل کے بے شمار سوالات اور میں (شبنم شکیل)۔“