حقیقت یہ تھی کہ نورمقدم قتل کی جس قدر تفصیلات وقتاً فوقتاً منظرعام پر آئیں‘ اُتنا ہی حیرت و افسردگی میں اضافہ ہوتا چلا گیا کہ کوئی تعلیم یافتہ شخص اِس حد تک بھی سنگدل ہوسکتا ہے! نور مقدم کو قتل کرنے کے بعد اُس کا سر تن سے جدا کرنا غیرمعمولی بات ہے۔ بہرحال لاش ظاہر جعفر کے گھر سے برآمد ہوئی جہاں نور مقدم کا آنا جانا رہتا تھا اور یہ اِن کے خاندانی دوستوں میں شمار ہونے والوں کا گھر تھا، بلاتاخیر مقدمہ (ایف آئی آر) درج ہوئی اور دوہری شہریت رکھنے والے ملزم ظاہر جعفر کو گرفتار کر لیا گیا‘ جس کا تعلق بھی ایک سرمایہ دار اور بااثر گھرانے سے ہونے کی وجہ سے یہ افواہیں گردش کرنے لگیں کہ ایک سفارتخانے کی دلچسپی کے باعث اِس مقدمے کا فیصلہ بھی ’خون بہا‘ دے کر ہو جائے گا لیکن ایک غمزدہ خاندان نے عدالت سے انصاف چاہا۔ بارہ اکتوبر دوہزاراکیس: ’سیشنز کورٹ‘ میں سماعت کے دوران حکومت نے ملزم کو قرار واقعی سزا دینے پر زور دیا۔
12 اکتوبر کے روز ملزم ظاہر اور 12دیگر ملوث (شریک ِجرم) ملزمان پر ’فرد جرم عائد کی گئی لیکن مقدمہ آگے بڑھتا رہا۔ عدالت نے ’چوبیس فروری دوہزاربائیس‘ فیصلہ جاری کیا جو جدید سائنسی بنیادوں پر جمع کردہ شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے سزائے موت سنائی گئی۔ مقدمے کے دوران کئی موڑ آئے جیسا کہ ’کلوزسرکٹ (سی سی ٹی وی)‘ کیمروں سے حاصل کردہ فوٹیج پر اعتراض کیا گیا۔ ملزم ظاہر کی ذہنی حالت کو مشکوک بنانے کی کوشش کی گئی لیکن اِن سبھی تکنیکی حربوں کو عدالت نے جس انداز میں غلط ثابت کیا اس سے تیزی سے انصاف ہوتا نظر آیا۔ بہرحال نورمقدم قتل کیس میں رسمی کاروائیوں کی تعمیل ہو چکی ہے اور یہ مقدمہ اپنے اختتام کے قریب پہنچ چکا ہے لیکن کسی حتمی نتیجے تک پہنچنے میں اُن سبھی امور کو دھیان میں رکھا جاتا ہے جن کا ملزم فائدہ اُٹھا کر یا طریقہ کار کی کوئی خامی ہاتھ لگنے سے فائدہ اُٹھانے کے قابل نہ رہے۔
نور مقدم کیس کی پیروی کرنیوالے والدین کے صبر کے علاوہ ریاست کی ثابت قدمی نے بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے اور مقدمے کو آگے بڑھانے کے لئے سازگار حالات و شواہد پیدا کئے ہیں جو بہرحال اپنی جگہ ایک کڑا امتحانات تھی کیونکہ قتل کا یہ مقدمہ ’ہائی پروفائل‘ رہا اور اِس پر اندرون و بیرون ملک سے قانون دانوں کی نظریں بھی جمی ہوئی تھیں۔ نور مقدم قتل کیس متاثرہ خاندان بالخصوص والدین کے لئے زیادہ تکلیف دہ ہے کیونکہ اُن کے زخم ہر پیشی پر ہرے ہوتے ہیں۔ ایسے کئی واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جس میں عدالتی کاروائی کے دوران جب قتل کی واردات کی منظرکشی کی جاتی تھی تو والدین کی سسکیوں سے عدالت کا ماحول مزید سوگوار ہو جاتا تھا۔ انصاف تک پہنچنے میں والدین کے دل پر کیا گزر رہی ہے‘ اِس بات کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا تاہم مقدمے کی جاری سماعت اور مرکزی ملزم کی سزائے موت سے امید ہے کہ انہیں انصاف ملنے کی اُمید ہو گی۔ متعلقہ فیصلہ ساز تفتیشی طریقہ کار کی مضبوطی اور ایسے مقدمات میں فوری‘ تیز رفتار فیصلوں کا نتیجہ یہ سامنے آئے گا کہ سزائیں ملنے کی صورت میں جرم کے ارتکاب سے خوف پیدا ہوگا اور کوئی بھی عام و خاص شخص اِس مغالطے میں نہ رہے کہ وہ مہنگے وکیل کے ذریعے طویل عدالتی کاروائی سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ نور مقدم کیس میں تیزی کے ساتھ انصاف کی جو مثال قائم کی گئی ہے یہ کئی حوالوں سے خوش آئند ہے۔