جنیدکی ”ناں“

ہمارے ہاں سیاست اب مفادا ت کاکھیل بن چکی ہے وہ وقت گذرگیا جب سیاست میں نظریات کا جاد و سرچڑھ کر بولا کرتاتھا جب سے وطن عزیز میں اصولی سیاست کی جگہ وصولی سیاست شروع ہوئی ہے سیاسی اخلاقیات کاجنازہ بھی نکل چکاہے اب سیاست ان لوگوں کے گرد گھومنے لگی ہے جس کے پاس اپنا ذاتی ووٹ بینک موجود ہوتاہے یہ لوگ ہر تھوڑے عرصہ کے بعد پارٹیاں بدلنے کے ماہر بن چکے ہیں بڑی بڑی سیاسی جماعتیں بھی اب ان کی محتاج دکھائی دیتی ہیں یہ رجحان عام ہے کہ جس کسی کو پارٹی ٹکٹ نہ ملا وہ یا تو پارٹی چھو ڑ کرنیا گھونسلہ تلاش کرتا ہے یا پھر آزاد حیثیت سے ہی پارٹی کے ووٹ خرا ب کرنے پرتل جاتا ہے اس قسم کے مظاہرے بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلہ میں پشاور سمیت صوبہ کے دیگر اضلاع میں سب نے دیکھے تاہم کبھی کبھار کوئی سرپھراایسا بھی سامنے آتاہے جو وفاداری بشر ط استواری کے اصول کو زندہ رکھنے کی خاطر قربانی کیلئے تیار ہوجاتاہے ایسے ہی چند لوگوں کی وجہ سے سیاست کی آبروکسی نہ کسی حد تک باقی ہے بلدیاتی الیکشن کا پہلا مرحلہ مکمل ہوچکاہے جبکہ 31مارچ کو دوسر ے مرحلہ کی پولنگ ہوگی جن علاقوں میں پولنگ ہونی ہے ان میں ضلع مانسہرہ بھی شامل ہے ضلع مانسہرہ کی تحصیل بالاکوٹ میں بھی تحصیل چیئرمین شپ کیلئے میدان سجا ہواہے بالاکوٹ ایک تاریخی علاقہ ہے جہاں پر سید احمد شہید اورشاہ اسماعیل شہید نے اپنے بہادر ساتھیوں کے ہمراہ آخری معرکہ لڑا اوریہ دونوں شہداء یہیں پر آسودہ خاک ہیں بالاکوٹ کی وجہ ایک اوروجہ شہرت یہاں کی درجنوں خوبصورت وادیاں بھی ہیں جن میں کاغان سب سے بڑی واد ی ہے اس کے علاوہ ناران،شوگران،شاران،بھونجہ،گھنول،مانور اوردیگر خوبصورت علاقے اور جنت نظیر جھیلیں بھی سیاحوں کیلئے باعث کشش ہیں اس لیے یہاں کا تحصیل ناظم بننا کسی اعزاز سے کم ہرگز نہیں جب الیکشن کابگل بجا تو دیگر جماعتوں کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن نے بھی امیدواروں کے ناموں پرغور شروع کردیا ان میں سے سب سے اہم نام سابق وفاقی وزیر سید قاسم شاہ کے صاحبزادے جنیدعلی قاسم کاتھا جنیدعلی قاسم اس سے قبل دو بار تحصیل بالاکوٹ کے ناظم رہ چکے ہیں۔
 وہ مقامی سیاست میں انتہائی متحرک کردار کے حامل ہیں ان کی سب سے بڑی خوبی مقامی آبادی کے ساتھ قریبی روابط ہیں وہ مستقل طورپر بالاکوٹ میں ہی رہتے ہیں دیگر کئی مقامی سیاسی رہنماؤں کی طرح پشاوریا پھر اسلام آباد یا مانسہرہ میں رہائش نہیں رکھی ہوئی جنیدعلی قاسم کا اپنا گروپ بھی مضبوط ہے جبکہ برادری بھی تگڑی ہے اس لیے عام خیال تھا کہ ن لیگ کے امیدوار وہی ہونگے مگر اسی دوران علاقائی سیاست شروع ہوگئی اور مسلم لیگ ن کا ٹکٹ ایک ایسے امیدوار کو دے دیاگیا جسے مقامی حلقے کمزور تصور کرتے ہیں جس کے بعدجنیدعلی قاسم پر برادری کے ساتھ ساتھ قریبی دوستوں،پورے گروپ حتیٰ کہ سردار محمد یوسف کے قریبی احباب کابھی دباؤ پڑنے لگاکہ بغاوت کرکے میدان میں نکل آئیں یہ بغاوت کابہت اچھاموقع تھا میدان گرم تھا کارکن نارا ض تھے اور انکا ساتھ دینے کے لیے تیار تھے مگر تب انہوں نے سب کو ”ناں“کہہ کر حیران وپریشان کرکے رکھ دیا۔
 انہوں نے سردار یوسف کے ساتھ کیا گیا قول نبھاتے ہوئے واضح کیاکہ ان کی جماعت نے جو بھی فیصلہ کیاہے وہ ان کوہرحال میں قبول ہے اور اب وہ پارٹی فیصلے کے خلاف کسی بھی صورت بغاوت نہیں کریں گے  جنید علی قاسم کی ایک ناں نے انہیں اس صف میں لاکھڑاکردیاہے جہاں بہت کم لوگ جگہ پاتے ہیں حالانکہ مسلم لیگ ن کے رہنما اور مقامی سیاست کے نباض سردار محمد یوسف کے اپنے بعض قریبی ساتھی بغاوت کرکے اپنی ہی جماعت کے امیدوار کے خلاف اس وقت میدان میں ہیں مگر جنید علی قاسم نہ صرف یہ کہ خو د پارٹی امیدوا ر کی حمایت کررہے ہیں بلکہ اپنے فیصلے سے ناراض ہونے والے قریبی ساتھیوں اوربرادری کو بھی قائل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں تاکہ لیگی امیدوار کو ہرصورت کامیاب بنایا جاسکے اب پارٹی امیدوار الیکشن جیتتا ہے یاہارتاہے یہ تو 31مارچ کو پتہ چل جائے گا مگر یقینی اس موقع پر بغاوت سے انکار کرکے بالاکوٹ کایہ نوجوان سیاستد ان اصولی معرکہ میں فتح یا ب ہوچکاہے اوراس نے اپنے اس انکار سے چھوٹے سے بالاکوٹ کو پورے ملک کے لیے مثال بناکر پیش کردیاہے۔